سینیٹ میں حذب اختلاف نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے ہوئے اسے عوام دشمن قرار دیدیا ، اپوزیشن سینیٹرز کا کہنا تھا کہ یہ ورلڈ بنک کا بنایا ہوا بجٹ ہے ،وزیر خزانہ نے صرف پڑھ کر سنایا ہے،حکومتی اراکین نے بجٹ کو متوازن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو کیوں کچھ نظر نہیں آ رہا۔
سینیٹ اجلاس چئیرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا، اپوزیشن اراکین سینیٹر مشتاق، عبد الغفور حیدری اور دیگر نے کہا کہ بجٹ سے دو روز قبل شوکت ترین بول رہے تھے کہ ہمارا دیوالیہ ہوگیا ہے، بجٹ کے بعد اب بول رہے ہمارا ملک بچ گیا ہے، شوکت ترین نے پہلے جھوٹ بولا یا بعد میں یہ اب پتا لگانا ہے، ہم مسلسل قرضہ لے رہے، حکمران مسلسل جھوٹ بول رہے ۔
اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ شوکت ترین نے امریکہ سے کہا ہے آپ ہمیں آئی ایم ایف سے ریلیف دلوائیں، ہم آپ کو ریلیف دلوائیں گے، یہ غریب عوام کا نہیں ، اشرافیہ کا بجٹ ہے، ملکی معشیت ونٹی لیٹر پر ہے،بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، ایف بی آر ٹیکس کلیکشن کا ہدف پورا نہیں کرسکا،حکومت غیر قانونی طور قرضے لے رہی ہے، عوام کے 628 ارب روپے سرمایہ کاروں کو دیئے جا رہے ہیں۔
اجلاس میں حکومتی سینیٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ محدود وسائل کے اندر بیلنس بجٹ پیش کیا گیا،مزدور کی اجرت بڑھا کر 20 ہزار کردی گئی،احساس پروگرام کے لیے 260 ارب روپے رکھے گئے، حکومتی رکن دنیش کمار نے کہا کہ بجٹ پاکستانی عوامی کی امنگوں کے مطابق ہے، ترقیاتی اخراجات میں اضافہ ،بلوچستان کےلئے بہت کچھ رکھا ہے، اپوزیشن کو کیوں نظر نہیں آ رہا۔
اجلاس میں وفاقی طبی تدریسی اداروں ،قومی ادارہ صحت کی تنظیم نو،باہمی قانونی معاونت کا ترمیمی بل اورخواتین کی جائیداد حقوق کے نفاذ کا ترمیمی بل بھی پیش کیا گیا، چیئرمین نے تمام بلز متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیے، اجلاس پیر تک ملتوی کر دیا گیا۔