رجسٹرار سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے اہلخانہ کی لندن جائیدادوں سے متعلق ایف بی آر کی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل دیے کہ حکومت چاہتی ہے کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کی سماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی دس رکنی فل کورٹ نے کی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل دیے کہ وزیر قانون فروغ نسیم نے2 جون 2020 کو کہا خاتون کی شناخت شوہر سے ہوتی ہے۔ شوہر کی وفات کے بعد بیوی ستی ہو جاتی ہے۔وزیر قانون نے تمام خواتین کی توہین کی۔
سریناعیسی نے ذاتی حیثیت سے دلائل دیتے ہوئے کہا لندن جائیدادوں کے ریکارڈ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کا نام ہے اور نہ ہی کردار،جبکہ میرے بچے کیس میں فریق بھی نہیں تھے ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی سپریم جوڈیشل کونسل کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ سرینا عیسیٰ کا نام بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری میں سامنے آیا۔مقدمہ غیر قانونیت کا نہیں بلکہ ذرائع آمدن کا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا ایف بی آر رپورٹ کے مطابق آپ تینوں جائیدادوں میں 50فیصد شیئر ہولڈر ہیں،کیا یہ بات درست ہے؟
سرینا عیسی نے کہا تینوں فلیٹس میں 50فیصد شیئر ہولڈر ہوں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا یہ بات اچھی ہے کہ پیسے قانونی طریقے سے باہر بھیجے گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کیا میں اپنی اہلیہ کو وکیل کر لوں؟ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ مسکراتے ہوئے بولے آپ نے بہت دیر کر دی یہ پہلے سوچنا تھا۔
سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔