سابق انسپکٹر جنرل پولیس افضل شگری کہتے ہیں کہ جب بھی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بنتی ہے تو پولیس ایک آسان ہدف ہوتا ہے۔ ’پولیس امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے اس لیے ہجوم کے لیے ایک آسان ہدف ہوتی ہے۔‘
افضل شگری کے مطابق ’جب اس طرح کی پر تشدد تنظیمیں احتجاج کرتی ہیں تو ان کا طریقہ کار یہی ہوتا ہے کہ پولیس کو ہدف بنایا جائے اور ریاستی مشینری کو مفلوج کیا جائے جس سے افراتفری اور امن و امان خراب کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ‘
انہوں نے حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’جتنی بھی حکومتی آئی ہیں ان کا رویہ مذہبی تنظیموں کے حوالے سے انتہائی مایوس کن ہوتا ہے اور حکومت ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائی تو درکنار بولنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں اور خوف کی وجہ سے حکومت اپنی فورسز کو واضح احکمات بھی نہیں دیتی۔
افضل شگری سمجھتے ہیں کہ ’جب کوئی بھی شخص یا گروہ قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے، پولیس پر حملہ کرتا ہے، عوامی املاک کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوتے ہیں اور اس کا کسی بھی معاہدے کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔ جب آپ کسی جرم کو معاہدے کے ذریعے راضی کرتے ہیں تو پھر ریاست کی رٹ ختم ہو جاتی ہے۔‘
پولیس کے انسپکٹر عبد الجبار کے اہلخانہ جو کہ ملک میں ہونے والے حالیہ احتجاج کے دوران پر تشدد واقعات سے خوف و ہراس کا شکار ہیں، کہتے ہیں کہ ’ہمیں ایسی نوکری نہیں چاہیے جس میں یہ بھی پتا نہ ہو کہ آپ خیریت سے گھر واپس آئیں گے بھی یا نہیں۔‘
عام طور پر پولیس اہلکاروں کے خاندان کے افراد ڈیوٹی کی نوعیت اور حساسیت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور ہر طرح کی صورتحال کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار رکھتے ہیں۔
لیکن 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے دوران انسپکٹر عبدالجبار نہ صرف شدید زخمی ہوئے بلکہ ان کی موت کی اطلاعات بھی گردش میں رہیں۔ یہی وجہ یے کہ عبدالجبار کے اہلخانہ مذہبی سیاسی جماعت کی جانب سے حالیہ احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات سے خوف کا شکار ہیں۔
انسپکٹر عبدالجبار نے بتایا کہ 2017 میں جب فیض آباد کے مقام پر ٹی ایل پی کے کارکنان نے دھرنا دیا اس وقت وہ کھنہ پولیس سٹیشن میں بطور ایس ایچ او تعینات تھے۔
’میں دو گاڑیوں کے ہمراہ تقریباً 1500 آنسو گیس کے شیل فیض آباد کے ارد گرد تعینات کی گئی نفری کو مہیا کر رہا تھا۔ حب فیض آباد کے پل کے قریب پہنچے تو ٹی ایل پی کے کارکنان نے عقب سے گھیر لیا، سامنے ٹی ایل پی کے کارکنان کا دھرنا تھا اور پیچھے اب 500 سے 700 کارکنان نے گھیراؤ کیا ہوا تھا اور ہمارے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا میرے ساتھ جو دیگر اہلکار تھے انہوں نے بھاگ کر اپنی جان بچا لی۔‘
انسپکٹر عبدالجبار نے تشدد کا احوال بتاتے ہوئے کہا ’اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ گاڑی سے باہر نکل کر ان سے کوئی بات چیت کروں مگر دیکھتے ہی دیکھتے میرے سر پر کئی ڈنڈوں کے وار ہوئے اور ایک پتھر آ کر میرے سر پر لگا جس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ سر پر کئی ٹانکے لگے اور پسلیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں، دو ہفتے تک ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا اور محکمے کی جانب سے انہیں لفافے میں دو ہزار روپے بھجوائے گئے۔
’ہم تو اللہ کے آسرے پر ڈیوٹی کرتے ہیں، اس دھرنے کے دوران 60 سے 70 پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے تھے، ایک پولیس اہلکار کی آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ ایسی صورتحال اسلام آباد پولیس کو پہلی بار دیکھنے کو ملی جس کے بعد پولیس کی اس قسم کے ہجوم سے نمٹںے کی تربیت شروع کی گئی لیکن جب اتنے لوگ ہوں تو پھر کوئی ٹریننگ بھی کام نہیں آتی۔
ترجمان کے مطابق گزشتہ چھ ماہ سے اسلام آباد پولیس اہلکاروں کی دھرنے کے لیے ٹریننگ کی جارہی تھی، ’پی ڈی ایم کی جانب سے دھرنے کی کال دی گئی تھی اس لیے چھ ماہ سے پولیس اہلکاروں کی تربیت کی جارہی تھی اسی وجہ سے اس بار ٹی ایل پی کے کارکنان سے سڑکیں بھی کلیئر کروائی جا رہی ہیں اور اہلکار زخمی بھی نہیں ہوئے۔‘
سابق آئی جی افضل شگری کے مطابق ہجوم کے لیے پولیس آسان ہدف ہوتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد پولیس کےایک ترجمان کے مطابق دھرنے اور جلسے جلوس کے حوالے سے خصوصی تربیت دی جاتی ہے کہ ہجوم میں اکیلے نہیں جانا بلکہ اکٹھے رہنا تاکہ کسی کے ہاتھوں یرغمال نہ بنا جائے۔
اسلام آباد پولیس کے ایک کانسٹیبل نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف کیے گئے پولیس آپریشن میں شدید زخمی ہوئے تھے لیکن انہیں وزارت داخلہ کی جانب سے ایک لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا۔
’دھرنے کے کے لیے وزارت داخلہ نے خطیر رقم مختص کر رکھی تھی اور اس فنڈز میں سے جو رقم استعمال نہیں ہوئی وہ بعد میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں میں تقسیم کی گئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ طاہر القادری کے تیسرے دھرنے کے دوران بھی وہ شدید زخمی ہوئے لیکن اس وقت کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔