ضمانت پر رہائی کا حکم پانے والے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف دو ہزار سترہ سے کیسز کا سامنا کررہے ہیں۔
تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے دو ماہ بعد انہیں پہلی بار گرفتار کیا گیا۔ قومی احتساب بیورو نے شہباز شریف کیخلاف 15 نومبر 2017 کو 56 کمپنیز کیس کی تحقیقات کا آغاز اس وقت کیا جب وہ پنجاب کے وزیراعلٰی تھے۔
انتخابات دو ہزار اٹھارہ کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے دوسرے ماہ 5 اکتوبر 2018 کو نیب نے شہباز شریف کو صاف پانی کمپنی کی تحقیقات کیلئے بلا کر آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں گرفتار کرلیا۔
گرفتاری کے دوران ہی شہباز شریف پر رمضان شوگر ملز کیس میں بھی گرفتاری ڈال دی گئی۔
بعد ازاں 14 فروری 2019 کو لاہور ہائیکورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
نیب نے انکا نام ای سی ایل میں بھی شامل کرایا لیکن ہائیکورٹ نے نام خارج کرنے کا حکم دے دیا۔اٹھائیس ستمبر دوہزار بیس کو لاہور ہائی کورٹ نے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں عبوری ضمانت مسترد کردی جس کے بعد نیب حکام نے انہیں گرفتار کرلیا۔
آج 14 اپریل دوہزار اکیس کو لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کرلی ہے اور اب وہ ساڑھے چھ ماہ بعد دوبارہ رہا ہوں گے۔ شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیراعلٰی رہ چکے ہیں۔