جاپان نے فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ کا تابکاری پانی سمندر میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پڑوسی ملکوں اور ماحولیاتی تنظیموں کی طرف سے اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔
جاپانی حکومت نے برسوں سے جاری بحث و مباحثے کے بعد بلآخر منگل کو فیصلہ کیا کہ تباہ شدہ بجلی گھر کا کوئی ایک ملین میٹرک ٹن فضلہ دو سال بعد سمندر میں چھوڑا جائے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس پانی کو سمندر میں چھوڑنے سے پہلے جتنا ممکن ہوا صاف کیا جائے گا۔ اس تابکاری فضلے کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری ٹوکیو الیکٹرک پاور کپمنی کی ہے، جس کے پاس اس وقت پانی ذخیرہ کرنے کے ایک ہزار ٹینک ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سن دو ہزار بائیس کے بعد یہ نقصان دہ مواد سنبھال کر رکھنے کی مزید صلاحیت نہیں ہو گی۔ ناقدین کمپنی کے اس موقف سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ زہریلا مواد سمندر میں پھینکنے کی بجائے یہیں محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
٭ ہوا کیا تھا؟
جاپان میں دس برس پہلے زلزلے اور سونامی نے فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ سمیت وسیع رقبے پر زبردست تباہی پھیلائی تھی۔ اس سانحے میں 18500 لوگ مارے گئے یا لاپتہ ہو گئے تھے۔
اس سونامی نے جاپان کے شمال مشرقی ساحل کا 400 کلومیٹر علاقہ برباد کر دیا تھا۔ اس علاقے میں مٹی، پانی اور کھیتوں میں ایٹمی پلانٹ کی تابکاری کے باعث لوگوں کا وہاں جانا ممکن نہیں، جس کے باعث فوکوشیما کے میونسپل علاقوں کو ''نو گو ایریا‘‘ قرار دے کر بند رکھا گیا ہے۔
٭ صحت اور ماحول کے لیے خطرہ
حکام کے مطابق سمندر میں چھوڑنے سے پہلے اس تابکاری پانی سے بیشتر زہریلی دھاتیں الگ کرنا ممکن ہو گا، سوائے ٹریٹیم کے، اسے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ٹریٹیم آبی حیات کے لیے مضرِ صحت ہے اور اگر خوراک کے ذریعے مچھلیوں میں شامل ہو جائے تو انسانی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہو گی۔
تحفظ ماحول کی عالمی تنظیم گرین پیس کے مطابق اس کے علاوہ بھی 'اسٹرونٹیم نائنٹی‘ جیسی ریڈیو ایکٹو دھاتیں ہیں، جو سمندری حیات اور انسانی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ تنظیم کے مطابق تابکاری مواد سمندر میں چھوڑنے سے لوگوں میں کینسر کا خطرہ بڑھ جائے گا، جو کہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔
ادھر، جاپان کے پڑوسی ملکوں چین اور جنوبی کوریا نے بھی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں مقامی لوگوں، ماحولیاتی تنظیموں اور ہمسایہ ملکوں سے مزاحمت بڑھ گئی تو جاپانی حکومت کو اپنے اس متنازعہ فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔