تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے ملک بھر میں تیسرے دن بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ املاک کے نقصان، اربوں روپے کے ڈوبنے، پولیس پر تشدد اور جلاؤ گھیراؤ پر کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ریاست ایکشن کیوں نہیں لے رہی؟
واضح رہے کہ تحریک لبیک نے گزشتہ برس نومبر میں اسلام آباد میں حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے، جس کے لئے حکومت نے اس سال فروری تک کا وقت مانگا تھا اور بعد میں مزید وقت مانگا گیا تھا۔
تحریک لبیک نے حکومت کے لیے 20 اپریل کی تاریخ مقرر کی اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بیس اپریل تک فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دے۔
کچھ دنوں پہلے تحریک لبیک کے قائد حافظ سعد رضوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اگر حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو کارکنان اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
حکومت نے اس سے پہلے ہی بروز پیر حافظ سعد رضوی کو گرفتار کر لیا، جس کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔
ان مظاہروں کی وجہ سے لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد، حیدرآباد اور سکھر سمیت ملک کے کئی شہروں میں معمولات زندگی متاثر ہوئے۔
کئی علاقوں میں کاروباری مراکز بند رہے اور ٹریفک میں خلل رہا۔ تحریک لبیک نے ملک کے سو سے زائد پوائنٹس کو یا تو بند کیا ہوا ہے یا وہاں مظاہرے کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر لوگ حکومتی خاموشی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ حکومت نے لاشوں کے ساتھ بیٹھنے والے ہزارہ کے لوگوں کو 'بلیک میلرز‘ قرار دیا تھا لیکن ان کے خلاف وزیراعظم اور ان کے وزراء بات نہیں کر رہے۔
بعض ناقدین نے مولانا فضل الرحمان کو بھی حافظ سعد رضوی کی گرفتاری کی مذمت کرنے کے بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے بھی خلاف تنقید کے نشتر چلائے، جہاں پولیس اور رینجرز ان مظاہرین کو روکنے میں ناکام دکھائی دی۔
٭ مظاہرے ختم نہیں ہوں گے
تحریک لبیک کے رہنما رضوان سیفی کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کے ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ انہوں نے جرمن خبر رساں ادارے کو بتایا، 'حکومت نے ہم سے تین دفعہ وعدہ خلافی کی ہے اور ہم نے صبر کیا اور ہمارا 20 اپریل تک معاہدہ تھا۔ لیکن حکومت نے ہمارے قائدین اور رہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا، اس لئے ہم پورے ملک میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم نے اسلام آباد، راولپنڈی اور ملک کے کئی علاقوں کو سیل کر دیا ہے۔ یہ مظاہرے اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے اور جب تک ہمارے قائدین اگلے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کرتے۔'
٭ مذاکرات کریں یا پھر!
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ دو دن کے احتجاج میں ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو گیا ہے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ انہوں نے ڈیوچ ویلے کو بتایا ، 'ملک میں ٹیچرز اور دوسرے طبقات کے احتجاج ہو رہے ہیں لیکن حکومت ان سے مذاکرات نہیں کرتی تو وہ ان مظاہرین سے مذاکرات کیا کرے گی۔ ہمارے دور حکومت میں طاہرالقادری ایک لاکھ کے قریب لوگ لے کر آئے تھے لیکن اس کے باوجود ہم نے اس سے مذاکرات کئے اور کچھ ہی دنوں میں اس مسئلہ کو حل کر لیا۔ حکومت کو فوراً مذاکرات کرنے چاہئیں یا آخری آپشن کے طور پر نیم فوجی دستے بلانے چاہئیں۔'
٭ مریضوں کی ہلاکتوں کا خدشہ
پاکستان میں اس وقت کورونا کی تیسری خوفناک لہر چل رہی ہے اوراس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لہر میں اب تک کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جن کی حالت تشویشناک ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے حالات کو نہیں سنبھالا تو ملک میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔
ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے جرمن خبر رساں ادارے کو بتایا، 'زندگی بچانے والی ادویات کی کمی ہوتی جارہی ہے۔ ہسپتالوں کے ملازمین اسپتال نہیں پہنچ پائے جبکہ جو ہسپتالوں میں رکے ہوئے ہیں وہ اپنے گھر نہیں پہنچ پاتے۔ دل، کینسر، جگر اور دیگر امراض کے مریض ہسپتال نہیں پہنچ پا رہے اور راستے میں ہی دم توڑ رہے ہیں۔ آکسیجن سلنڈرکی ہر جگہ قلت ہے۔ ایسے میں کورونا کے مریضوں کی جان کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟'
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پی ایم اے کے عہدیدار ڈاکٹر عبدالرشید بھی اس بات سے متفق ہیں کہ اگر صورتحال بہتر نہیں ہوئی تو ملک میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'ہسپتال کے ملازمین کو ہسپتالوں تک پہنچنے میں دشواری ہو رہی ہے، اگر وہ نہیں پہنچیں گے تو علاج کون کرے گا۔'
٭ سڑکوں کی بندش
ڈاکٹر ٹیپو کا کہنا تھا کہ اگر ریاست چاہے تو دو منٹ میں سارے روڈ خالی ہو سکتے ہیں، 'کراچی میں کئی مقامات پر دس دس پندرہ پندرہ احتجاجیوں نے سڑکوں کو بلاک کیا ہوا ہے اور وہ مین روڈ پر کیمپ لگا کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو اٹھایا کیوں نہیں جا رہا، اگر ریاست چاہے تو دو منٹ میں انہیں کان سے پکڑ کر اٹھا سکتی ہے۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری طور پر راستوں کو صاف کرائے۔'
٭ ریاست کی دوہری پالیسی
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ کھلے عام ریاستی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سے ریاست کا دوہرا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ عمار جان کا کہنا تھا، 'ایک طرف ریاست نے صرف مظاہرہ کرنے، کتابیں پڑھنے یا فیس بک پر کوئی پوسٹ لگانے پر لوگوں کو غائب کر دیا ہے یا ان پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیا ہے اور دوسری طرف یہ لوگ ہیں جنہوں نے وزیراعظم، آرمی چیف اور سفیروں کو دھمکیاں دیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا۔'