پاکستانی حکومت نے حریف ہمسایہ ملک بھارت سے کپاس اور چینی کی درآمدات پر عائد تقریباﹰ دو سالہ پابندی ختم کر دی ہے۔ اسلام آباد کا یہ فیصلہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان تعطل کے شکار تجارتی تعلقات کی بحالی کی طرف اہم قدم ہے۔
پاکستانی وزیر خزانہ حماد اظہر نے بتایا کہ یہ فیصلہ ملک کی اقتصادی رابطہ کونسل کے ایک اجلاس میں آج بدھ اکتیس مارچ کے روز کیا گیا، جو ملک میں اس نوعیت کے فیصلے کرنے والا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔
پاکستان میں خاص طور پر چینی کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں ایک بار پھر واضح اضافہ ہوا ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ اس اضافے کو کم سے کم رکھا جائے۔
اسی لیے گزشتہ قریب دو برسوں سے اسلام آباد اور نئی دہلی کے باہمی تجارتی تعلقات میں پائے جانے والے جمود کو ختم کرتے ہوئے اب پاکستانی حکومت نے ملکی نجی شعبے کو یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ بھارت سے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کر سکتا ہے۔
اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے بتایا کہ بھارت سے اب پاکستان میں کپاس اور سوتی دھاگا بھی درآمد کیا جا سکے گا۔
اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے حماد اظہر نے صحافیوں کو بتایا، ''اگر کسی ملک کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے عام شہریوں پر بوجھ کم کیا جا سکتا ہے، تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
ساتھ ہی پاکستانی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمسایہ ملک بھارت میں چینی کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔
بھارت دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا اور چینی پیدا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
حماد اظہر نے بتایا کہ پاکستانی نجی شعبے کے لیے تیس جون تک کا وقت ہو گا کہ وہ بھارت سے نصف ملین ٹن چینی درآمد کر سکے۔
اس کے علاوہ بھارت سے کپاس اور سوتی دھاگے کی درآمد کی نجی شعبے کے علاوہ پاکستان کے سرکاری اداروں کو بھی اجازت ہو گی۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اسلام آباد کے اس فیصلے پر آخری خبریں آنے تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔
پاکستان 2019ء تک بھارتی کپاس کا ایک بڑا خریدار ملک تھا مگر پھر نئی دہلی میں مودی حکومت کی طرف سے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے فیصلے کے ردعمل میں پاکستان نے اپنے ہاں بھارتی مصنوعات کی درآمد بند کر دی تھی۔