بھارت میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی 26 آیات کو حذف کرنے کے حوالے سے وسیم رضوی نامی ایک شخص کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ درخواست کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ تمام مسالک کے مسلمان مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے عام مسلمانوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
لکھنؤ کے رہائشی اور اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں ایک درخواست میں مطالبہ کیا تھا کہ قرآن کی ان چھبیس آیات کو اس مقدس کتاب میں سے ہٹایا جائے، جو ان کے بقول ’دہشت گردی کو فروغ دینے میں معاون‘ بنتی ہیں۔
ماہرین قانون نے تاہم اسے بھارتی شہریوں کو حاصل آئینی حق کا غلط استعمال کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ درخواست گزار کی سختی سے سرزنش کرتے ہوئے اسے سزا بھی سنا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق رجسٹرار جنرل جسٹس سہیل اعجاز صدیقی کا کہنا ہے، 'عدالت عظمیٰ پہلی نظر میں ہی اس پٹیشن کو خارج کر دے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئینی حق کا غلط استعمال کرنے پر سپریم کورٹ وسیم رضوی پر بھاری جرمانہ عائد کر دے اور ان کی سرزنش بھی کرے کیونکہ اس طرح کا سارا کھیل بالعموم بدعنوانی کے کیسز میں قانونی شکنجے سے بچنے اور فیشن کے طورپر سکیورٹی حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔'
وسیم رضوی نے اس کیس میں کئی درجن مسلم سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے علاوہ تقریباً ایک درجن حکومتی وزارتوں، سرکاری محکموں اور اداروں کو فریق بنایا ہے۔
بھارت کے کئی مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وسیم رضوی نے ملک میں فتنہ پھیلانے کی جو کوشش کی ہے، اس کے باعث ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
بھارتی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور معروف دینی درس گاہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مہتمم مولانا رابع حسنی ندوی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ’فتنہ انگیزی‘ کو روکنے کے لیے سخت کارروائی کرے کیونکہ اس سے بھارت اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ملک کا ماحول بھی خراب ہو رہا ہے۔
برصغیر کے معروف دینی ادارے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نفرت اور بدامنی پھیلانے کی کوشش کرنے والے ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جانا چاہیے کیونکہ ایسے عناصر سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
مجلس علمائے ہند کے جنرل سیکرٹری ا ور معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نقوی کا کہنا تھا، 'وسیم رضوی اسلام دشمن ہیں اور ان کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ متعصب اداروں اور اسلام دشمن تنظیموں کے آلہ کار ہیں۔ ان کو مسلکی عناد بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔'
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وسیم رضوی کی طرف سے دائر کردہ درخواست ایک بڑی سازش ہے اور وسیم رضوی کو اس کے لیے آلہ کار بنایا گیا ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے اور عوام کی توجہ کسانوں کی تحریک سے اور مہنگائی کی طرف سے ہٹ جائے۔
اس تنازعے کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ کئی مقامات پر وسیم رضوی کے خلاف پولیس میں کیس بھی درج کرائے جا چکے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو اپنے طور پر ان کے سر کی قیمت بھی لگا دی ہے۔
دوسری طرف ہندوؤں کا ایک طبقہ وسیم رضوی کی حمایت میں آگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی زبردست حمایت کی جا رہی ہے اور انہیں ’سب سے بڑا دیش بھکت‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی حفاظت کے لیے حکومت سے مطالبات بھی کیے جانے لگے ہیں۔
٭ وسیم رضوی ہیں کون؟
وسیم رضو ی کو مایاوتی کے دور حکومت میں اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ ان پر وقف کی زمینوں کو غیر قانونی طور پر فروخت کرنے اور کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے الزامات بھی ہیں۔
مایاوتی حکومت کے بعد جب اتر پردیش میں اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، تو وسیم رضوی سماج وادی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ پھر جب اس ریاست میں یوگی ادیتیا ناتھ کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی، تو رضوی نے ہندوتوا کے حق اور مسلمانوں کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے تھے۔ مرکزی تفتیشی ادارہ سی بی آئی ان کے خلاف کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے الزامات کی جانچ کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ابھی تک اس درخواست کو سماعت کے لیے منظور نہیں کیا لیکن ماہرین قانون کے مطابق عدالت یہ پٹیشن مسترد کر دے گی۔
لاء کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن پروفیسر طاہر محمود کا کہنا ہے کہ 1984میں قرآن مجید کے خلاف کولکتہ ہائی کورٹ میں بھی اسی قسم کا ایک کیس دائر کیا گیا تھا، جسے عدالت نے خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا تھا، 'عدالت کا اس معاملے میں نوٹس لینا ملکی آئین کے قطعاً خلاف ہوگا اور مدعیان نے عدالت میں یہ معاملہ اٹھا کر قانوناً خود ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے۔'
فیضان مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ جس طرح ماضی میں بھارتی حکومت نے اس طرح کی عرضی کی مخالفت کی تھی، امید ہے کہ مودی حکومت بھی اس پٹیشن کی مخالفت کرے گی۔
وسیم رضوی کا دعویٰ ہے کہ قران کی مذکورہ 26 آیات کے سلسلے میں انہوں نے گزشتہ جنوری میں بھارت کی چھوٹی بڑی 57 مسلم مذہبی اور سماجی جماعتوں اور اداروں کو ایک خط بھیجا تھا اور اپنے سوالات کی وضاحت طلب کی تھی۔
انہوں نے وزارت قانون سمیت تقریباً ایک درجن حکومتی اداروں، محکموں اور اعلیٰ عہدیداروں کو بھی خط ارسال کیا تھا اور اس بارے میں ضروری کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اس پر نہ تو مسلم جماعتوں نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی حکومت نے کوئی جواب دیا، جس کے بعد ہی وسیم رضوی یہ معاملہ لے کر سپریم کورٹ گئے۔
ماہر قانون فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ کہ بھارتی سپریم کورٹ وسیم رضوی جیسے لوگوں کو سخت سرزنش کر کے ایک مثال قائم کرے گی لیکن اگر مذکورہ چھبیس آیات کو حذف کرنے کا فیصلہ سنا بھی دیا گیا، جس کا امکان بہت ہی کم ہے، تب بھی 'بھارت اور دنیا بھر میں کئی ملین حافظوں کے دلوں سے ان آیات کو محو کرنے کا تو کوئی سافٹ ویئر موجود نہیں ہے۔'