اسلام آباد :چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے پولنگ کا عمل جاری ہے، حکومتی اتحاد کے امیدوار صادق سنجرانی اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان مقابلہ ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کیلئے پریزائیڈنگ آفیسر مظفر حسین شاہ کی صدارت میں سینیٹ کا اجلاس جاری ہے۔
ایوان بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر پریزائیڈنگ آفیسر نے اراکین اپنی اپنی نشستوں پربیٹھنےکی ہدایت کی اور ایوان کے دروازے بند کردیئے گئے۔
سیشن کے آغاز میں پریزائیڈنگ آفیسر مظفر حسین شاہ نے ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار اراکین کو سمجھایا۔
پریزائیڈنگ آفیسر کا کہنا تھا کہ کسی ممبر کو پولنگ بوتھ میں کیمرا اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی،پولنگ کا عمل 5 بجے ختم ہوگا، جس کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہوگی،گنتی کے بعد منتخب ہونے والے امیدوار سے چیئرمین سینیٹ کاحلف لیا کائے گا، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کےبعدڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوگا۔
ایوان میں خالی بیلٹ باکس دکھایا گیا ، جس کے بعد پریزائیڈنگ آفیسر نے پولنگ کا عمل شروع کرنے کی ہدایت کی، جس کے بعد عبد الغفور حیدری نے پہلا ووٹ کاسٹ کردیا۔
چیئرمین سینیٹ کیلئے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے یوسف رضا گیلانی امیدوار ہیں جبکہ صادق سنجرانی حکومتی امیدوار ہیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے اپوزیشن نے جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سینئر رہنما ءمولانا عبدالغفور حیدری جبکہ حکومت نے سابق فاٹا سے سینیٹر منتخب ہونے والے مرزا محمد آفریدی کو میدان میں اُتارا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن کے سینیٹرز اور رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے حکمت عملی سمیت کیمروں کی نشاندہی کے بعد کی صورتحال پر بھی غور ہوا۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن اپنے اراکین کی تعداد مکمل کرکے ایوان میں ووٹنگ میں حصہ لے گی، سینیٹ ایوان میں نئے قائم شدہ پولنگ بوتھ کےآس پاس علاقے کی چیکنگ کی گئی، جبکہ پولنگ بوتھ کے پاس درازوں کو ٹیپ لگا کر بند کیا جا رہا ہے۔
پولنگ بوتھ تیاری کی نگرانی محسن عزیز، علی ظفر، مصطفیٰ نواز کھوکھر، سیف اللہ نیازی نے کی ۔
اس موقع پر یوسف رضا گیلانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے پاس اپنی مطلوبہ تعداد پوری ہے، آج کےافسوس ناک واقعے کے بعد ملنے والے اضافی ووٹ بونس ہوں گے۔
اس سے قبل ایوان میں سیکریٹری سینیٹ کی نگرانی میں نیا پولنگ بوتھ قائم کردیا گیا۔
نیا پولنگ بوتھ قائم کئے جانے کے بعد سیکریٹری سینیٹ نے کہا کہ امیدوار اور نمائندے پولنگ بوتھ کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
آج صبح سینیٹ کے 48 نو منتخب ارکان نے حلف اٹھانے کے بعد رول آف ممبر پر دستخط کیے جس کے بعد سینیٹ اجلاس 3 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔
پریزائیڈنگ آفیسر مظفر شاہ نے نومنتخب اراکین سینیٹ سے حلف لیا، تقریب حلف برداری کے بعد تمام نو منتخب سینیٹرز نے رول آف ممبر پر دستخط کے ،گیلریوں میں بیٹھے افراد نے اس موقع پر تالیاں بجائیں۔
سینیٹ میں آج حلف اٹھانے والوں میں پی ٹی آئی کے 19، پیپلز پارٹی کے8 ، جے یو آئی ف کے 3، مسلم لیگ نون کے 5 ، بلوچستان عوامی پارٹی کے 6، بی این پی مینگل اور اے این پی کے بھی دو دو سینیٹرز نے حلف اٹھایا، مسلم لیگ ق کا ایک رکن بھی حلف اٹھانے والوں میں شامل ہے۔
ایم کیو ایم کے دو سینیٹرز نے بھی حلف اٹھایا جن میں نومنتخب سینیٹر خالدہ اطیب بھی حلف اٹھانے والوں میں شامل ہیں، خالدہ اطیب نے رول آف ممبر پر دستخط بھی کےس۔
سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا تو پولنگ کی جگہ پر دو کیمرے لگے ہونے پر مصدق ملک اور مصطفی نواز نے احتجاج کیا۔مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کیمرے کی تصویر سوشل میڈیا پر جاری کر دی ۔
اپوزیشن ارکان نے پولنگ بوتھ اکھاڑ کر سیکریٹری سینیٹ کی نشست پر رکھ دیا، ایوان میں نئے ارکان سینیٹ کی حلف برداری کے بعد ایک بار پھر ہنگامہ آرائی اور شدید شور شرابہ ہوا۔
سینیٹر رضا ربانی ایوان میں کھڑے ہوگئے، انہوں نے کہا کہ پولنگ بوتھ میں کیمرے لگانا آئین کی خلاف ورزی ہے، اس دوران اعظم سواتی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ قوائد کے مطابق کسی اور موضوع پر بات نہیں ہو سکتی۔
اعظم سواتی کی بات کاٹتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ رول میں کوئی اجازت نہیں کہ پولنگ بوتھ میں کیمرا لگایا جائے، اپوزیشن کے احتجاج کے بعد حکومتی ارکان بھی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بھی شدید احتجاج کیا۔
ایوان میں پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو اورحکومتی سینٹر ولید اقبال میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ولید اقبال کچھ شرم کریں، آپ خواتین کے ساتھ کس لہجے میں بات کر رہے ہیں۔
سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ولید اقبال آپ کا تعلق ایک مہذب گھرانے سے ہے، ولید اقبال بولے مجھے تمیز سکھانے کی ضرورت نہیں میں سب جانتا ہوں۔
سینیٹ کی موجود صورتحال کے تناظر میں اپوزیشن اتحاد کے پاس 51 اراکین کی اکثریت اور حکومتی اتحاد کے پاس 47 اراکین ہیں،تاہم جماعت اسلامی کا ایک ووٹ اور ممکنہ طور پر بی این پی اور اے این پی کا ایک ایک ووٹ انتخابات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ، لہٰذا اس الیکشن میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
سینیٹ میں دلچسپ پارٹی پوزیشن کے حساب سے 100 کے ایوان میں 99 ارکان موجود ، اسحاق ڈار حلف نہ اٹھانے کے باعث ایوان کا حصہ نہیں ہیں، اگر موجودہ اور نو منتخب سینیٹر میں پی ڈی ایم اتحاد کو اکھٹا دیکھیں تو انکے ارکان کی تعداد 51 بنتی ہے۔
اس میں پیپلز پارٹی کے 21،مسلم لیگ نون کے 17، نیشنل پارٹی کے 2، پی کے میپ کے 2،جمیعت علمائے اسلام ف کے 5، بی این پی کے 2 اور اے این پی کے 2 ارکان شامل ہیں۔
دوسری جانب حکومتی اتحاد کو دیکھیں تو پی ٹی آئی کے 27، بلوچستان عوامی پارٹی کے 12، ایم کیو ایم کے 3، مسلم لیگ فنکشنل کا 1، مسلم لیگ ق کے 1 ، فاٹا کے 3 سینٹرز شامل ہیں ، اس طرح حکومتی ارکان کی تعداد 47 بنتی ہے،ایسے میں ایک ووٹ بچتا ہے جو جماعت اسلامی کا ہے، جواب تک غیر جانبدار ہے۔
سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں چند سوئنگ ووٹ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، ان میں ایک ووٹ تو جماعت اسلامی کا ہے جو ووٹنگ سے غیر حاضر رہیں گے۔
بلوچستان میں اے این پی اتحاد کا حصہ ہے، ان کا ایک ووٹ حکومتی اتحاد کی جانب جا سکتا ہے ، ایسے ہی آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والی رکن بلوچستان عوامی پارٹی کے ووٹ سے کامیاب ہوئیں وہ بی این پی کا حصہ ہیں، لیکن انکا ووٹ حکومتی اتحاد کو جا سکتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہو گا لہذا اس میں سوئنگ ووٹ کا کلیدی کردار ہو سکتا ہے ۔