وفاقی وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ کہتےہیں اسٹیٹ بینک کی اکاؤنٹبلی کی ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہے۔ٹارگٹڈ سبسڈیز پرحکومت یقین رکھتی ہے اور فائدہ غریب اور نادار طبقے کو ہو۔نجکاری ایک مشکل کام اور سرمایہ کاری کی اس میں ضرورت ہوتی ہے۔
وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ اوروزیرصنعت حماد اظہر نے پریس کانفرنس کرتے ہوے کہا کہ آج کابینہ نے تین بنیادی قوانین کی منظوری دی جس کا مقصد معیشت کو بہتر کرنا اور مضبوط بنیاد بنانا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خود مختاری دی گئی ہے۔دنیا بھر میں جو مرکزی بینکوں کا اسٹیٹس ہوتا ہے ویسے یہاں بھی ہو۔مالیاتی پالیسی اور مہنگائی پر قابو پاناہے۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر کی مدت ملازمت کو پانچ سال کردیا گیا ہے، مانیٹری اور فسکل پالیسی بورڈ بھی ختم کیا جائے گا۔
انہوں نےکہاکہ اسٹیٹ بینک کوپارلیمنٹ میں اکاؤنٹبل کیا جارہا ہے۔ 21 ویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اداروں کی بہتری کےلئے کام کررہے ہیں۔ حکومتی ملکیتی اداروں کو مرکزی اندازمیں چلایاجائےاور وزارتوں کے کردار کو ختم کیا جائے۔وزارتوں کے زیر انتظام ہٹا کر وفاقی حکومت کے ماتحت کیا جائے گا۔بورڈز کمپنیوں کے سی ای اوز کی تعیناتی عمل میں لائیں گے۔حکومتی ملکیتی اداروں کو پیپرا قواعد سے بھی آزاد کیا جارہا ہے۔اس سے کمپنیوں میں مقابلے کی فضابنی رہےگی۔جن کمپنیوں کوٹیکس چھوٹ دی گئی ہے ان کو ختم کیاجائے۔کچھ طبقوں کوخصوصی مراعات دی گئی ہیں سب کو برابر ٹیکس دینا ہوگا۔ٹیکس چھوٹ کو کم اور ختم کرکے ٹیکس محصولات میں اضافہ کیا جائے گا۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ 441 حکومتی اداروں کا پتہ ہی نہیں تھا کسی کو 16 قسم کے فنکشن پرفارم ہورہے تھے۔اس میں کچھ خودمختار ادارے تھے لیکن اب ہم طریقہ کار تبدیل کررہے ہیں۔ 85 حکومتی کمرشل اداروں کی کلاسیفیکیشن کی۔یہ ادارے وزارتوں کے کنٹرول میں ہوتے تھے اور وزارتوں کی ان پر توجہ نہیں دی۔
انہوں نےکہا کہ 90 ٹریلین روپے کے حکومتی ملکیت کے اداروں پر حکومت نے پیسہ لگایا ہے۔ان اداروں سے صرف 4 ٹریلین روپے حاصل ہورہے ہیں۔حکومت نے نقصانات کو کم کیا اور 143 ارب روپے تک لے کر آئے ہیں۔حکومتی ملکیتی اداروں کی گورننس اور منیجمنٹ کو الگ الگ کیا جائے گا۔2018 کے بعد ہر پوسٹ مشتہر ہوتی ہے اور 56 چیف ایگزیکٹیو آئے ہیں جو بیرون ملک کام کرتے تھے۔