کپتان عمران خان کی سیاست عجیب دوراہے پر آکھڑی ہوئی ہے، بائیس سالہ کامیاب جدوجہد کے بعد بھی انہیں اپنوں سے ہی اعتماد کا ووٹ لینا پڑ گیا۔
کپتان عمران خان کا دکھ کون سمجھ پائے گا؟ بائیس سالہ جدوجہد کے بعد بھی غیروں سے نہیں اپنوں سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑ رہا ہے۔
بائیس سال کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ عزم و ہمت کی ایک طویل داستان ہے۔ کئی بار حوصلہ ٹوٹا مگر پھر کھڑے ہوگئے۔ موت کو قریب سے دیکھا، مگر اٹھ کھڑے ہوئے۔
دوہزار اٹھارہ میں مقبول ترین لیڈر بن کر اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف ڈٹ گئے۔ مگر ڈھائی سال کے عرصہ میں اپنوں نے دھوکہ دیا اور کچھ اپنوں نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لیں۔
جب معلوم ہوگیا ہے کہ مخالفین نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، سینٹ کے ایک نتیجہ نے ایوان کو ہلا کر رکھ دیا۔ مگر یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا کہ جھکیں گے نہیں، اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے مگر کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
یقیناً عمران خان یہ زخم نہیں بھولیں گے، مگر اب انہیں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ مخالفین کو لکارنے سے پہلے اپنی صفوں میں موجود کھوٹے سکوں پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے۔