اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پرسماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ افسوس !پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن)اپنے ہی معاہدےسےپھرگئے،دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں خفیہ ووٹنگ ختم کرنےکاوعدہ کیاتھا،میثاق جمہوریت اب بھی موجودہےمگردستخط کرنے والی جماعتیں اب اس پرعمل نہیں کر رہیں۔
چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجربینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی ، چیف جسٹس کی ہدایت پرالیکشن کمیشن نے سینیٹ ووٹرزکا ہدایت نامہ پیش کیا ۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے اٹارنی جنرل کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ ہدایت نامے میں متناسب نمائندگی اورخفیہ ووٹنگ کا ذکرہے ،اراکین اسمبلی اپنی پارٹی کے نظم ضبط کے پابند ہیں ،خلاف ورزی پرکارروائی ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کارروائی سے متعلق پوچھا تواٹارنی جنرل نےبتایاکہ کارروائی صرف ووٹوں کی خرید وفروخت پرہوسکتی ہے ، نااہلی بھی ہوسکتی ہے تاہم سزا کوئی نہیں ۔
جسٹس گلزار احمد نے ریماکس دیئےکہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتحابات پرنہیں ہوتا اورآرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکرنہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے آصف زردری کے 10 نشستیں جیتنے کے بیان کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہاکہ عمومی گفتگوتوہوتی رہے گی قانون کی بات کریں ۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اوروزرائے اعلی کے علاوہ ہرالیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی توآئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلطان طالب الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے شواہد کسی کے پاس نہیں عدالت کوسیاسی سوالات سے دوررہنا چاہیئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویزہے ،آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کررہی ہوتی ہے ۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہونے کا سوال اٹھایا تو چیف جسٹس نے کہاکہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے،افسوس ہے پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن اپنے ہی معاہدے سے پھرگئے میثاق جمہوریت میں خفیہ طریقے کارکوختم کرنے کا معاہدہ کیا لیکن دونوں پارٹیاں اب اس پرعمل نہیں کررہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے الیکشن کمیشن کے ترمیم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آئیں کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کیے بغیر وفاقی حکومت کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے شکریہ کے ساتھ جانے کا کہا تو ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ دلائل ابھی مکمل نہیں ہوئے تاہم چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان کوروسٹرم پربلا لیا ۔
ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اور ایڈوویٹ جنرل اسلام آباد نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اپنائے ،بعدازاں عدالت نے سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔