اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وضاحت پر ترقیاتی فنڈز کا مقدمہ نمٹادیا،جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے ؟ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اورآئین کے محافظ ہیں، معلوم نہیں کہ وزیراعظم کوسیاسی اقدامات پرآئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں ۔
چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجربینچ نے وزیراعظم کی جانب سے ارکان اسمبلی میں ترقیاتی فنڈزکی تقسیم کے کیس کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے سیکرٹری خزانہ کی وزیراعظم کے دستخطوں والی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ،رپورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈزنہیں دیئے جبکہ سندھ حکومت نے بھی تحریری جواب جمع کرادیا ۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسارکیا کہ کیا وزیراعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟ وزیراعظم کوآئینی تحفظ حاصل ہے، وہ اس وقت جواب دہ ہیں جب معاملہ ان سے متعلقہ ہے، حکومت جواب دہ ہوتو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جا سکتا، اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں ۔
اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پراعتراض کیا توجسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکرٹری سے مانگا گیا تھا ،حکومت سیکریٹریزکے ذریعے چلائی جاتی ہے، جو اعتراض آج کررہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آئینی سوال کسی بھی سطح پراٹھایاجاسکتا ہے ،کسی رکن اسمبلی کوترقیاتی فنڈزنہیں دیئے جا سکتے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ہم وزیراعظم آفس کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے ۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے واٹس اپ ملنے کا انکشاف کرتےہوئے کہاکہ موصول ہونے والے دستاویزت میں حلقہ این اے 65کے رکن کوفنڈزدیئے گئے کیا حلقے میں سڑک کیلئے فنڈز دینا قانون کے مطابق ہے؟ امید ہے آپ بھی چاہیں گے کہ کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں ، میرے خلاف ٹوئٹس کی بھرمار ہورہی ہے، کیا کرپٹ پریکٹس کیخلاف اقدامات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں ۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ماضی میں عدالتیں وزرائے اعظم کوطلب کرتی رہی ہیں، وزیراعظم نے کہا کہ 5سال کی مدت کم ہوتی ہے، وزیراعظم کوچاہیئے کہ ووٹ میں توسیع کیلئے اسمبلی سے رجوع کریں ۔