گوگل سے برطرف کی جانے والی خاتون نے کمپنی انتظامیہ پر سنگین الزامات عائد کردیے۔
گزشتہ ماہ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے متعلق اخلاق و ضوابط پر گوگل سے وابستہ محقق ٹمنٹ گیبرو کو تحقیقی مقالے پر ہونے والے تنازع کے بعد کمپنی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد گوگل میں ملازمین سے یکساں سلوک اور ہر طبقے کی نمائندگی کے لیے ساز گار ماحول سے متعلق سوالات اٹھنے لگے۔
حال ہی میں گوگل کے سی ای او سندر پچائی سے ڈیووس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم میں کمپنی میں شفافیت کے حوالے سے سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ گوگل اس حوالے سے بھی دنیا میں سب سے آگے ہے۔
سی ای او کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد ٹمنٹ گیبرو نے ٹوئٹس کا ایک پورا سلسلہ لکھ ڈالا اور اس میں کہا کہ سندر پچائی سے ان کے معاملے کے بارے میں براہ راست سوال ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اے آئی کے استعمال سے متعلق اخلاقی ضابطوں پر گوگل نے کھلی بحث کی اجازت دے رکھی ہے جب کہ یہ درست نہیں۔
گیبرو کا کہنا تھا کہ گوگل میں انہیں ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا ، گوگل میں جھوٹ بولا جاتا ہے، اختلاف رائے رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ انہوں ںے کہا کہ مجھے ہراساں کیا گیا، میرا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی اور مجھے اور میری ٹیم کو آن لائن حملوں کا ہدف بنایا گیا۔
انہوں نے گوگل پر نسلی امتیاز کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ گیبرو کا کہنا ہے کہ گوگل میں سیاہ فام افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور جو لوگ باقی ہیں وہ بھی ایک ایک کرکے کمپنی چھوڑ رہے ہیں۔
گیبرو نے دعویٰ کیا ہے کہ گوگل میں کھلے ماحول میں بحث مباحثے کی اجازت نہیں بلکہ خصوصا سیاہ فام خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے گوگل کے سی ای او کے دعوؤں کو غیر حقیقی قراردیا اور کہا کہ یہ لوگ بہت مصنوعی ہیں۔
واضح رہے کہ عام طور پر گوگل کے دفتری ماحول کو مثالی قرار دیا جاتا ہے تاہم حال ہی میں اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے استعمال سے متعلق ضوابط کے بارے میں کمپنی کے رویے اور اختلاف رائے رکھنے والے ملازمین سے متعلق طرز عمل پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔