چین نے دورانِ انقلاب مختلف کیٹگری کے سینکڑوں نہیں ہزاروں کریمنلز کو ایک ساتھ تختہ دار کی زینت بنادیا تھا، اس کے بعد سے آج تک چین میں بڑے پیمانے پر کرپشن، قتل و غارت اور ڈکیتیوں کی ایسی ہولناک داستانیں سننے کو نہیں ملیں جو ہمارے ہاں یا پھر مغربی ممالک میں سننے کو ملتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اٹلی نے بھی اب چین کے ماڈل کو فالو کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، جسے فالو کرنے کے لیے ہمارے دلوں اور زبانوں کے وزیراعظم عمران خان کئی بار دعوے تو کر چکے مگر اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ان کے پاس نہ تو فرصت ہے اور نہ ہی پلان۔ کیونکہ ابھی وہ اپوزیشن کے کڑے احتساب، میڈیا پر عوام کو تسلی دینے اور چینی اور آٹے کے مہنگا اور سستا ہونے کے نوٹس لینے میں مصروف ہیں۔
بات ہو رہی تھی اٹلی کی تو انہوں نے اپنی تیس سالہ تاریخ میں پہلی بار ملک بھر کی جیلوں میں قید 350 سے زیادہ سیریس کریمنلز کی ایک ساتھ ویڈیو کانفرنس کرتے ہوئے ان کے کیس نمٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ان خوفناک قیدیوں میں قاتل، ڈکیٹ، کرپشن کرنے والے اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد شامل ہیں جن میں سے کئی سیاستدان، بزنس مین کئی سابق حکومتی عہدیدار جبکہ کچھ پیشہ ورانہ مجرم ہیں۔
یہ سبھی ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں اور اٹلی کی حکومت نے ان کے کیسز ایمرجنسی بیسز پر نمٹانے کا فیصلہ کیا ہے جنہیں ایک ساتھ ویڈیو کانفرنس میں ٹرائل کا سامنا کرنے کے لیے پیش کیا گیا۔
ان سب کا فاسٹ ٹرائل جنوری کے آخر میں شروع کیا جائے گا اور جلد سے جلد کیسز نمٹاتے ہوئے انہیں کڑی سزائیں دی جائیں گی۔
لہٰذا اس ویڈیو کانفرنس کو منعقد کرنے کے لیے ایک ایسا کال سینٹر خالی کرایا گیا جہاں سسٹم اور اسکرینز بڑی تعداد میں مہیا تھیں اور وہاں ہزاروں افراد کے آسانی سے بیٹھنے کی گنجائش ہے تاکہ سینکڑوں وکلا، گواہان، رپورٹرز اور دیگر لوگ بیٹھ سکیں۔ جبکہ بہت سارے الزام علیہان ویڈیو لنک کے ذریعے اس کانفرنس کو اٹینڈ کریں گے۔
چیف پراسیکیوٹر نکولا گریٹری کا کہنا تھا کہ یہ ٹرائل تیز ترین ہو گا اور ہماری کوشش ہوگی کہ اسے ایک سال کے اندر نمٹا دیا جائے۔ اس کے لیے ریاست نے 900 گواہان کو طلب کر رکھا ہے اور تقریباً 24 ہزار گھنٹوں پر اس ٹرائل کو سننے کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف پراسیکیوٹر کا کہنا تھاکہ یہ سب ہم مافیا کو ختم کرنے کے لیے کر رہے ہیں اور اس کے لیے سخت قانون سازی بھی کی جائے گی اور اس پر عمل درآمد ریاست کرائے گی۔