بین الاقوامی امور سے متعلق ایرانی مرشد اعلیٰ کے مشیر علی اکبر ولایتی نے ایک متضاد بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ علی خامنہ ای ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو "حرام" سمجھتے ہیں، لیکن ضرورت کے وقت ایران کی جانب سے اس کا استعمال "مباح" ہے۔
مباح کسے کہتے ہیں؟
وہ کام جو شرعاً حلال ہو نہ حرام۔ اس فعل کو اپنی مرضی سے کرنے یا نہ کرنے پر عتاب ہے نہ ثواب اور یہی مباح ہے۔ مثلاً لذیذ کھانے کھانا اور نفیس کپڑے پہننا۔
روسی ویب سائٹ کو دیے گیے انٹرویو میں علی اکبر ولایتی کا کہنا تھا کہ 'ہم مرشد اعلیٰ کے بیان کردہ دینی اور بین الاقوامی وعدے کے پابند ہیں کہ ایٹمی ہتھیار حرام ہیں، تاہم ضرورت پڑنے پر ہمارے (ایران) کے لیے ان کا حصول ضروری ہے اور ہم ایسا کر کے رہیں گے۔'
امریکا کی جانب سے نیوکلیئر معاہدے کو "ری اوپن" کرنے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے علی اکبر ولایتی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ 'ہمارے لیے اہم بات یہی ہے کہ ایران پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں، ہمیں امریکا کے معاہدے میں واپس آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ واشنگٹن کی واپسی سے ہمارے مفادات پر گزند پڑنے کا اندیشہ ہے۔'
درایں اثناء مرشد اعلیٰ کے مشیر نے بتایا کہ امریکا سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے وضع کردہ "ٹریگر میکانیزم" کا خاتمہ اولین شرط ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت تمام پابندیاں خود بخود لاگو ہوتی چلی گئیں۔ علی اکبر ولایتی کے بیان سے لگتا ہے کہ مرشد اعلیٰ بھی یہی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر ایران نے نیوکلیئر معاملے پر اپنی طے کردہ کمٹمنٹ کا پاس نہیں رکھا اور یورنیم کو بیس فیصد کی حد تک افزدہ کرنا شروع کر دیا۔ تہران نے کئی نئی تنصیبات پر کام شروع کر دیا جس کے بعد خامنہ ای کے گذشتہ ماہ دیے گئے بیان کے بعد امریکا سے مذاکرات کے سلسلے میں ایرانی سیاسی حلقوں میں ہیجانی کیفیت پیدا کر دی۔
اصلاح پسند حلقے خامنہ ای کے بیان کو حسن روحانی حکومت کے لیے گرین سگنل قرار دے رہے ہیں جس کے بموجب وہ نئی امریکی انتظامیہ کے اقتدار سنبھالتے ہی فوراً جو بائیڈن سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیں۔ ادھر انتہا پسند ایرانی حلقے حسن روحانی پر خامنہ ای کے بیان کی ایک دوسری تشریح کرتے ہوئے برس پڑے کہ مرشد اعلیٰ دراصل تہران سے پابندیاں ہٹانے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے، ان کا مقصد مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنا نہیں ہے۔