بیروزگاری ایک عالمی اور سنگین مسئلہ ہے، دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ ان ممالک میں کینیڈا اور امریکا وغیرہ جیسے ملک بھی شامل ہیں۔ خاص کر براعظم ایشیاء کے ممالک اس مسئلہ سے پریشان ہیں اور نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی اس کی زد میں ہے۔ بیروزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بہت سی سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں، خطرناک حالات سامنے آتے ہیں اور ملک پستی کی جانب چلا جاتا ہے۔
بیروزگاری ایک ایسی برائی ہے جو ایک اچھے شہری اور انسان کو برائی کی طرف راغب کرتی ہے اور وہ انسان اچھائی کو چھوڑ کر برائی کو چنتا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ اور فریب جیسے گناہ اس کیلئے عام بات بن جاتی ہیں۔ لوگ دہشت گردی ملوث ہوجاتے ہیں جبکہ لوٹ مار بھی عام ہوجاتی ہے، جس سے نہ صرف شہریوں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ لوگ سیاسی قیادت اور حکومت سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور آئے روز ملک میں ہڑتالیں ہوتی ہے۔ اس سنگین مسئلے کی وجہ سے لوگ دین سے دور اور برائی کے قریب ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں نہ صرف عام شہری بلکہ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی ڈگریاں لے کر گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ مجبوری کے تحت یا تو کوئی معمولی جاب کررہے یا فیکٹریوں میں مزدوریاں کررہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والی نسلوں میں بھی تعلیم کا شوق ختم ہوگیا ہے اور وہ چھوٹی عمر میں پیسہ کمانے کی لالچ یا برائی کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ ایک بیروزگار فرد کو معاشرے میں ہمیشہ ذلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور وہ شخص خود کو نامکمل اور کمزور سمجھنے لگتا ہے۔ بیروزگار انسان ہمیشہ بے یقینی اور بے چینی کا شکار رہتا ہے جو بہت سی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ بیروزگاری سے لوگوں کے دل میں ماحول کا فرق آنے لگتا ہے یعنی وہ لوگ جو امیر ہیں وہ غریب طبقے کے لوگوں کو خود سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور معاشرے میں مساوات کا عمل ختم ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے گھر کے اخراجات، بچوں کی خواہشات اور تعلیم کے خرچے تک کو پورا نہیں کر پارہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے گھر میں آئے روز فاقہ کشی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور یہ لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ کچھ لوگ ان سب پریشانی و مسائل سے تنگ آکر اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جاتے ہیں تو کچھ لوگ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی کو بے معنی و بے مطلب سمجھنے لگتے ہیں اور موت کے علاوہ انہیں دوسرا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
بیروزگاری کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے جس کی وجہ سے تمام شہریوں کو برابر حقوق نہیں مل رہے۔ دوسری سب سے بڑی وجہ مہنگائی اور برآمدات کی کمی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے جس کا اثر نہ صرف تعلیم و تجارت پر ہوا بلکہ اس کی وجہ بہت سے لوگ اپنے روزگار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ موجودہ وبائی صورتحال میں کئی فیکٹریوں نے اپنے آدھے سے زیادہ مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیا ہے یا پھر ان کی تنخواہیں روک دی ہیں جس سے لوگوں کی زندگی پر گہرا اثر ہوا ہے اور انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تعلیم کی کمی، لوگوں میں فن کا شوق ختم ہونا، کاشتکاری اور زراعت کے شعبہ میں کمی بھی بیروزگاری کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ شہر اور دیہات میں فرق کی وجہ سے دیہاتی لوگوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے اور نہ ہی تعلیم و فن کے کوئی ادارے دیہات میں بناہے گئے ہیں، اگر کوئی کمپنی یا ادارہ بھی دیہات میں بنایا گیا ہے تو وہاں پر مقامی لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا بلکہ شہروں سے لوگ بلواکر انہیں نوکری دی جارہی ہیں۔
حکومت کو چاہیئے کے وہ مختلف اقدامات کے ذریعے بیروزگاری جیسی سماجی برائی کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرے۔ اس مسئلے کے خاتمے کیلئے حکومت کو سب سے پہلے ٹیکس میں کمی کرنی چاہیئے جبکہ برآمدات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیئے، اس کے علاوہ درآمدات کو صرف ضرورت کی حد تک رکھیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ تعلیم اور فن کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں تاکہ کوئی بھی شہری بے ہنر اور غیر تعلیم یافتہ نہ ہو اور ملک میں ذیادہ سے ذیادہ ادارے کھولنے کی کوشش کریں۔ تمام شہریوں کو برابر حقوق دیں، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنا ہنر دکھانے کے برابر مواقع دیں اور دیہات کی فیکٹریوں میں باہر سے لائے جانے والے ورکروں کی بجائے مقامی لوگوں کو نوکریاں دیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ بیروزگاری جیسی سنگین اور سماجی برائی کو نظر انداز نہ کرے۔
تحریر: سائرہ لطیف
درج بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، آج نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔