دل موہ لینے والی آواز، دل کش اداؤں اور شخصیت کی مالک دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بننے والی ملکہ ترنم نورجہاں کو مداحوں سے بچھڑے بیس برس بیت گئے۔
ملکہ ترنم نور جہاں کے لازوال گیت اور غزلیں آج بھی شائقین کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔
ساز و آواز اور شاعری کے حسین سنگم کے ساتھ اگر مدھر اور میٹھی آواز مل جائے تو ایک نغمہ مکمل ہوتا ہے اور اگر یہ آواز میڈم نورجہاں کی ہو تو گیت امر ہو جاتا ہے۔
21 ستمبر 1926 کو قصور میں جنم لینے والی سروں کی ملکہ موسیقار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ چار سال کی عمر میں انہیں موسیقی کی تعلیم کے لیے خاندانی استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا گیا۔
ان کا اصل نام اللہ وسائی تھا جب کہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔ نور جہاں کو ملکہ ترنم کا خطاب برصغیر کے نامور منظر نویس اور ہدایت کار ضیا سرحدی نے دیا تھا۔
نور جہاں الفاظ کی ادائیگی اور اتار چڑھاؤ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ ملکہ ترنم نے گلوکاری کے ساتھ درجنوں فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔
عظیم گلوکارہ نے 1965 کی جنگ میں اپنے ملی نغموں سے سرحد پر لڑنے والے جوانوں اور قوم میں نیا جوش بھر دیا۔
سر، لے اور تال کے اتار چڑھاؤ پر عبور رکھنے والی ترنم کی ملکہ کے گائے ہوئے گانے فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ملکہ ترنم نور جہاں کے پوتوں اور نواسوں میں جائیداد کی تقسیم کا تنازعہ
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور نشان امتیاز بھی عطا کیا۔
موسیقی کی دنیا میں شاید ہی کبھی کانوں میں رس گھولنے والی جادوئی آواز کی مالک میڈم نور جہاں کا خلا پر ہو سکے۔ ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کوعلالت کے بعد انتقال کر گئی تھی۔