ایران کے مرکزی نیوکلیئر سائنس دان محسن فخری زادہ کو تہران کے قریب قتل کردیا گیا، عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے دھماکے کی آواز سنی جس کے بعد مشین گن کے فائر بھی ہوئے۔
فخری زادہ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی گاڑی میں جارہے تھے، واقعے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے روڈ کو بلاک کردیا، محسن فخری زادہ ایران کی وزارت دفاع کے ریسرچ سینٹر کے سربراہ بھی تھے۔
فخری زادہ کے بارے میں مغرب کا طویل عرصے سے گمان تھا کہ وہ مشتبہ طور پر ایرانی خفیہ ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔
وہ بیرون ممالک کے نزدیک 2003 میں بند کیے گئے ایک پوشیدہ ایٹمی بم پروگرام کے قائد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔
یاد رہے کہ ایران طویل عرصے سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوششوں کی تردید کرتا رہا ہے۔
ایران کی مسلح افواج کی جانب سے ریاستی میڈیا پر دیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'بدقسمتی سے میڈیکل ٹیم ان کی بحالی میں کامیاب نہیں ہو سکی اور چند منٹ قبل وہ انتقال کر گئے۔'
ایران کی خبر رساں ایجنسی تسنیم کے مطابق دہشت گردوں نے دارالحکومت کے باہر گھات لگا کر فخری زادہ اور ان کے محافظوں پر فائرنگ کی۔'
وہ ایران کی جانب سے واحد ایٹمی سائنس دان تھے جن کا نام 2015 میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام کی 'حتمی جانچ' میں شامل تھا۔
فخری زادہ کون تھے؟
دو سال قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ ان کے ملک کی سکیورٹی فورسز ایران کے جوہری ذخیرے چوری کرنے اور اس کے راز سیکھنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔
اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا 'محسن فخری زادہ، یہ نام یاد رکھنا۔'
نیتن یاہو جس شخص کے بارے میں بات کر رہے تھے انہیں آج قتل کردیا گیا۔ پاسداران انقلاب کے قریبی ذرائع نے ان کے قتل کی ویڈیوز جاری کی ہیں۔ ایرانی وزارت دفاع نے ان کی موت کی تصدیق کردی ہے۔
نیتن یاہو کی تقریر پہلی بار نہیں جب دنیا نے فخری زادہ کے بارے میں سنا تھا۔ ایران کے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں اس نام کو بار بار اہم شخصیت قرار دیا گیا۔
یہاں تک کہ یہ نام امریکی میڈیا کے طاقت ور ترین مردوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ مغربی میڈیا نے ان کا موازنہ نظریاتی طبیعیات کے سائنس دان رابرٹ اوپن ہائیمر اور 84 سالہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کیا جو اپنے ملک کے لیے ایٹم بم بنانے میں کامیاب رہے۔
ایرانی سیکیورٹی دفاعی شخصیات نے فخری زادہ کو ایٹمی طبیعیات کے شعبے میں ایک باصلاحیت مفکر کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
وہ ہاشمی رفسنجانی کے زمانے سے ایران کی دفاعی صنعت میں ایک اہم شخصیت رہے۔
ایران کے جوہری پروگرام (جو 2003 میں ختم ہوگیا تھا) میں ان کے کردار کے انکشاف کی وجہ سے انہیں 2007 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
فخری زادہ کو نیو ڈیفنس ریسرچ آرگنائزیشن نامی ایک تنظیم کا سربراہ نامزد کیا گیا جو ایرانی وزارت دفاع کا حصہ ہے۔
2010 میں جرمنی کے ڈیر اسپیگل میگزین نے ایران کے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی تائید کرنے والی خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں دو افراد نمایاں تھے: احمدی نژاد کے وزیر برائے سائنس ، کامران دانشجو اور محسن فخری زادہ۔
فخری زادہ 1961میں قم میں پیدا ہوئے، اپنے کام کی حساسیت کی وجہ سے وہ ہمیشہ میڈیا کی نظروں سے دور رہتے تھے۔ تاہم ان کا نام 1980 کی دہائی کے اخبارات میں ایرانی طبیعیات کی ایک اہم شخصیت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ مختلف دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ایرانی یونیورسٹی میں طبیعیات کی تعلیم بھی دے رہے تھے۔
اس قتل کا مفہوم
فخری زادہ کے قتل نے دو واضح سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب یا اسرائیل کو یقین ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کیا ہے؟ اور کیا یہ کسی وسیع تنازعہ کا پیش خیمہ ہے؟
تاہم ، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاسداران انقلاب اگر اپنے اعلی ترین سائنس دانوں کی زندگیاں بھی نہیں بچا سکتے، تو ان کی سیکیورٹی کس قابل ہے؟