امریکہ میں اس وقت انتخابی عمل زور و شور سے جاری ہے اور کورونا بحران کی بندشوں کے باوجود الیکشن توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
انتخاب میں جہاں کروڑوں امریکی ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا، وہیں لاکھوں امریکی شہری مختلف وجوہات کی بنیاد پر ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکے۔
بعض تجزیہ کار ایسے امریکیوں کو 'خاموش شہری' کہتے ہیں کیوں کہ وہ دیگر ہم وطنوں کی طرح جمہوری عمل میں ووٹ کا بنیادی حق استعمال نہیں کر پاتے۔
آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کون سے امریکی شہری ہیں جنہیں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے:
امریکہ کے زیرِ انتظام پانچ علاقوں کے رہائشی
امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اُن شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے جو امریکہ کے زیرِ انتظام پانچ علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ویسٹ انڈیز اور بحر الکاہل کے خطوں میں واقع ان علاقوں میں یو ایس ورجن آئی لینڈز، پورٹوریکو، امریکن سمووا، گوام اور شمالی ماریانا آئی لینڈز شامل ہیں۔ ان علاقوں میں رہائش پذیر امریکی شہریوں کی مجموعی تعداد 40 لاکھ ہے۔
دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت میں ووٹرز کے حقوق کے علم بردار اس ممانعت کو ایک بڑے تضاد کا نام دیتے ہیں کیوں کہ ان پانچوں علاقوں کے رہائشی امریکی شہری ہونے کے باوجود امریکی صدر اور نائب صدر کے انتخاب میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے اور انہیں کانگریس میں بھی مؤثر نمائندگی حاصل نہیں۔
البتہ یونیورسٹی آف شکاگو کے لیگل فورم کے مطابق ان وفاقی علاقوں کے رہائشی سیاسی جماعتوں کے کنونشن اور پرائمری مقابلوں میں صدارتی امیدواروں کے چناؤ کے عمل میں شرکت کر سکتے ہیں۔
اس تناظر میں ایک مثال 2016 میں نمایاں رہی جب سینیٹر مارکو روبیو نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل پورٹوریکو کی ری پبلکن پرائمری میں 13 کے مقابلے میں 71 فی صد ووٹوں سے فتح حاصل کی اور 20 ڈیلی گیٹس حاصل کیے۔
ایک دلچسب پہلو یہ ہے کہ اگر ان وفاقی علاقوں کے رہائشی امریکہ کی 50 میں سے کسی ایک ریاست یا دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں سکونت اختیار کرلیں تو انہیں ووٹ کا حق مل جاتا ہے۔
دوسری طرف اگر کوئی امریکی شہری مین لینڈ امریکہ سے ان علاقوں میں منتقل ہوتا ہے تو قانون کے مطابق وہ ووٹ ڈالنے کا حق کھو دیتا ہے۔ حالاں کہ امریکی شہریوں کو یہ سہولت میسر ہے کہ وہ امریکہ سے باہر کسی اور ملک میں موجود ہونے کی صورت میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
عدالتی معاملہ یا آئینی؟
ان پانچ امریکی علاقوں میں بسنے والے لوگوں نے کئی دہائیوں سے یہ مؤقف اپنایا ہوا ہے کہ ووٹ کا حق نہ ہونا ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
لیکن آئین کے آرٹیکل دو کے مطابق صرف امریکی ریاستوں میں رہنے والے لوگ ہی الیکشن میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
لہذٰا جب یہ مقدمہ عدالت میں لے جایا گیا تو عدالت نے فیصلہ دیا کہ آئین میں ترمیم ہی ایک واحد طریقہ ہے جو ان علاقوں کے رہائشیوں کو ووٹ کا حق دلا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں صدر رچرڈ نکسن نے 1970 میں ایک مصالحتی گروپ بھی تشکیل دیا تھا جس کے ذمے پورٹو ریکو کے رہائشیوں کو صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے امکان کا تفصیلی جائزہ لے کر سفارشات دینا تھا۔
یاد رہے کہ پورٹو ریکو کی آبادی 30 لاکھ سے زیادہ ہے اور اس علاقے کے سیاسی کارکنان صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل کرنے کی کوشش میں پیش پیش ہیں۔ لیکن تا حال یہ ایک حل طلب معاملہ ہے۔
جرائم کے مرتکب افراد
امریکہ میں شروع ہی سے یہ بات چلی آ رہی ہے کہ سنگین جرائم کے مرتکب افراد انتخابات میں ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ امریکہ میں لاکھوں افراد وفاقی اور ریاستی جیلوں میں مختلف جرائم کے تحت قید ہیں۔
لیکن امریکہ کی کچھ ریاستوں میں ریاستی قانون سازوں نے قیدیوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
مثال کے طور پر مین اور ورمونٹ ریاستوں میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔ حتیٰ کہ قید کے دوران بھی وہ جمہوری عمل کا حصہ رہتے ہیں۔
سولہ ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مجرم جیل میں قید کی مدت کے دوران ووٹ ڈالنے کا حق کھو دیتے ہیں جب کہ ان کی رہائی کے فوری بعد ان کا یہ جمہوری حق بحال کر دیا جاتا ہے۔
اکیس ریاستوں میں مجرم قید کے دوران اور رہائی کے کچھ عرصے بعد تک ووٹ ڈالنے کے مجاز نہیں رہتے۔ ایسا ضمانت پر رہائی کے دوران یا زیرِ نگرانی رہائی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس مقررہ مدت کے فوراً بعد ان کے ووٹ ڈالنے کا حق بحال کر دیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں 11 ریاستوں میں سنگین جرائم کے مرتکب مجرم ووٹ کا حق مستقل طور پر کھو دیتے ہیں۔ ان کا یہ حق ریاست کے گورنر کی طرف سے دی جانے والی معافی سے ہی بحال ہو سکتا ہے۔
گزشتہ کچھ دہائیوں سے یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ مجرموں کو ووٹ ڈالنے کا حق کسی نہ کسی وقت بحال کر دیا جاتا ہے۔
ذہنی امراض میں مبتلا افراد
امریکہ میں ووٹ ایک بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کو ووٹ ڈالنے سے روکا جاتا ہے کیوں کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے قابل نہیں۔
کچھ ریاستوں میں ایسے قوانین نافذ ہیں جو کسی کی زیرِ نگہداشت رہنے والے افراد کو جمہوری عمل میں حصہ لینے سے روکتے ہیں۔ یہ قوانین اس بات سے قطعِ نظر ہیں کہ ایسے افراد ووٹ ڈالنے کے قابل ہیں یا نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی کے انتخابات میں ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انتخابی عملہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی ووٹ ڈالنے کی صلاحیت کا جائزہ لے کر اپنے طور پر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ انہیں ووٹ ڈالنے دیا جائے یا نہیں۔
لیکن سرکاری ویب سائٹ میں درج طریقۂ کار کے مطابق انتخابی عملے کے اس اقدام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور وفاقی قوانین کے تحت کسی بھی فرد کو ماسوائے چند بہت ہی محدود حالات کے ووٹ ڈالنے کے حق سے نہیں روکا جا سکتا۔
اگر کوئی فرد پولنگ اسٹیشن جانے کے قابل ہے یا پولنگ اسٹیشن جائے بغیر اپنے غیرحاضر ہونے کے بیلٹ کو مکمل کر سکتا ہے تو اسے قانون کی روح سے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔