تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے۔ پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اور اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے۔
دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے، نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا۔
نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلیٰ ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا، احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا۔
وقت گزرتا رہا اورطباعت و اشاعت کا کام جاری رہا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ہوئی، مسلمان،ہندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاہور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔ ان کے ادارے نے دلی مین بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وہی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔ نول کشور جی بوڑھے ہوگئے اور اب گھر پر آرام کرنے لگے جبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔ آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آگیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ہاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ہونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے۔ ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا، چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ہوا۔ نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی۔ چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔
یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہیں لگ رہی۔ مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شمشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔ اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔
امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ہے اور جیسے احترام کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ہی نہیں سکے گی چاہے آپ پورے ہندوستان کا تیل اور گھی چتا پر ڈال دیں۔ اس لئے بہترہے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئے۔
چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتےہوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ہی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ہندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے شمشان گھاٹ میں ہی دفنا دیا گیا۔