پڑھا لکھا نوجوان عزیر بلوچ گینگ وار کا سربراہ بن کر مسلح گروہوں کو چلایا کرتا تھا۔ وہ سیاسی تنظیم کے رہنماؤں کے قریب بھی رہا اور مختلف سیاسی شخصیات کے ساتھ اس کی دوستی اور تصاویر اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق لیاری کے علاقے سنگولین کا عزیر علی گریجویشن کاطالب علم تھا اور والد کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو آگے بڑھانے میں مشغول تھا۔ سال 2003 میں عزیرعلی کے والد فیضو ماما کو لیاری گینگ وار کے ارشد پپو نے اغوا کے بعد قتل کردیا۔
اس واقعے کے بعد دوسرے مسلح گروپ کے سربراہ عبدالرحمان عرف ڈکیت نے عزیرعلی کو اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ عزیرعلی نے اپنے والد کی موت کا بدلہ لینے کے لئے گینگ وار کی دنیامیں قدم رکھ دیا۔
سال 2008 میں پولیس مقابلے میں عبدالرحمان عرف ڈکیت کے مارے جانے کے بعد عزیرعلی نے سرداری کی کرسی سنبھالی، وہ لیاری گینگ وار کا سربراہ بن گیا اور سردار عزیر جان بلوچ کے نام سے پہچانا جانے لگا۔
عزیربلوچ کی پیپلزپارٹی کے بیشتر رہنماؤں کے ساتھ مختلف اوقات میں تصاویر بھی موجود ہیں۔ 30 جنوری سال 2016 کو رینجرز نے عزیر بلوچ کو گرفتار کیا اور سال 2018 میں عزیربلوچ کی منظرعام پر آنے والی جے آئی ٹی میں کئی اہم انکشافات سامنے آئے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ پر 198 افراد کے قتل کا بھی الزام ہے۔ گینگ وار کے ارشد پپو اور شیرشاہ کباڑی مارکیٹ میں 11 دکانداروں کا قتل بھی اس میں شامل ہے۔ گینگ وار سربراہ عزیربلوچ پر ارشد پپو قتل کیس سمیت 54 مقدمات زیرِسماعت ہیں۔