قاہرہ کے قصرالبارون محل کے بارے میں طویل عرصے سے یہ افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ یہ آسیب زدہ ہے، محل کے قریب رہنے والے محل کے اندر سے عجیب و غریب آوازیں، چیخیں اور میوزک سنتے تھے اور ساتھ ہی روشنیاں چمکتی اور تیزی سے ختم ہوتی تھیں۔
ہیلیوپولس کے باشندوں کی طرف سے کئی دہائیوں سے جاری کی جانے والی فرضی باتوں میں یہ بھی ہے کہ محل کے نیچے خفیہ راستے اور سرنگیں چلتی ہیں جس میں ایک راہداری بھی ہے جس کو باسیلیکا چرچ سے جوڑتا ہے جہاں ایمپن دفن ہے۔
قاہرہ کے قصرالبارون امبان کو ترقیاتی منصوبے کے شروع ہونے کے تقریباً تین سال بعد سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
وزارت سیاحت اور نوادرات کے ذریعے جاری کردہ ٹکٹ محل کے سرکاری افتتاح کے بعد فوری طور پر فروخت ہوگئے۔
سیاحت اور نوادرات کے وزیر خالد الانعنی نے کہا کہ’ 20 ویں صدی کے اوائل میں تعمیر ہونے والے اس محل کے بارے میں جاننے کے لیے بہت سے مصری باشندوں نے اس محل کا دورہ کیا‘۔
اس محل کی بحالی پر 175 ملین مصری پونڈ ($ 10.9 ملین) کی لاگت آئی ہے۔
الانعنی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ محل سیاحوں کو ماضی میں لے جائے گا جب بیلجیئم کے کاروباری بیرن ایڈورڈ ایمپائن نے قاہرہ کے سب سے مشہور شہر ہیلییوپولس ضلعے اور اس کے شاندار محل کی تعمیر شروع کی۔
یہ محل زمین کے اوپر ایک تہ خانے اور دو منزلوں پر مشتمل ہے جسے یونانی مجسموں اور انڈین ثقافت سے متاثرہ سجاوٹ سے سجایا گیا ہے۔
اس عمارت میں بہت سی نوادرات نمائش کے لیے رکھ گئی ہیں جن میں پرانی کاریں بھی شامل ہیں جو گذشتہ صدی کے ابتدائی دنوں میں قاہرہ کی سڑکوں پر چلائی گئیں اور اس عرصے کے دوران ہیلیوپولس کی حقیقی زندگی کی تصویر پیش کرنے میں مدد گار تھیں۔
ایک پرانی ہیلیوپولس ٹرام کار محل کے باغ میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے۔
یہاں پر مختلف برقیاتی پورٹلز اور ملٹی میڈیا ڈسپلے ہیں جن میں ہیلیوپولس اور محل میں تعمیراتی کام پر مرکوز تصویروں اور دستاویزی فلموں سے مدد لی گئی ہے۔
دستاویزی فلمیں سیاحوں کو ابتدائی برسوں میں گلیوں، عمارتوں، دکانوں، ٹریفک اور ہمسائے میں زندگی کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے محل کی دیواروں پر وزارت کی منظور شدہ صحت اور حفاظت سے متعلق احتیاطی تدابیر چسپاں کی گئی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔
سکرینیں امپائن اور اس کے ساتھی نوبر پاشا کے علاوہ محل کو ڈیزائن کرنے والے فرانسیسی انجینئر الیکژنڈر مارسل کی تصاویر بھی آویزاں کرتی ہیں۔
اس کے باغات میں ایک کھانے کی ٹوکری شامل ہے جو محل کے قدیم زمانے سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے جو دیکھنے والوں کو مشروبات اور سنیکس فراہم کرتی ہے۔
اس محل میں ایک کیفے ٹیریا اور ایک ریستوران بھی موجود ہے جو 20 ویں صدی کے اوائل کے تاریخی ماحول کی یاد دلاتا ہے۔
کھانے پینے والے افراد سماجی فاصلے کی ہدایت اور صحت و حفاظت سے متعلق منظور شدہ شرائط پر عمل کرتے ہیں۔
مصری سپریم کونسل کے نوادرات کے سکرٹری جنرل مصطفیٰ وزیری نے بتایا کہ ’اس محل کی بحالی پر قاہرہ میں بیلجیئم کے سفارت خانے کے تعاون سے 175 ملین مصری پونڈ (10.9 ملین ڈالر) خرچ ہوئے‘۔
وزیری نے کہا کہ ’اس محل کو اپنی سابقہ شکل میں بحال کرنے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے 2017 میں کام شروع کیا گیا تھا۔‘
’یہ محل 2007 کے بعد سے ہی قدیم نوادرات کی سپریم کونسل کی ملکیت رہا ہے۔ مصری حکومت نے اس کے مالکان کو معاوضہ دینے کے بعد 1950 کی دہائی میں نیو قاہرہ میں اراضی کے بدلے اسے امپائن کے ورثا سے خریدا تھا‘۔
نوادرات کی بحالی کے ماہر احمد قادری نے بتایا کہ اس محل کی تعمیر میں چار سال لگے اس کا آغاز 1907 میں ہوا۔
22 سالہ ہوڈا سید نے کہا کہ ’میں محل میں کچھ کہانیاں دیکھنے کے لیے گیا تھا جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا۔‘
سید نے کہا کہ ’محل کا ٹاور 360 ڈگری پر گھومتا ہے تاکہ ہر طرف سے عمدہ نظارہ پیش کیا جا سکے۔ پوری عمارت سورج کی گردش کی سمت موڑ دیتی ہے۔
محل کے بارے میں طویل عرصے سے یہ افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ یہ آسیب زدہ ہے۔ سید کے مطابق محل کے قریب رہنے والے محل کے اندر سے عجیب و غریب آوازیں، چیخیں اور میوزک سنتے تھے اور ساتھ ہی روشنیاں چمکتی اور تیزی سے ختم ہوتی تھیں۔
سکیورٹی کی مداخلت کے بعد یہ پتا چلا کہ کچھ نوجوان بالغ لوگ خفیہ پارٹیوں کے انعقاد کے لیے لاوارث محل میں گھس رہے تھے۔