کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچائی ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں یہ وباء انسانی صحت پر اثر انداز ہورہی ہے وہیں زندگی کے دیگر شعبوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لوگ اس وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں، پوری دنیا اس سے نمٹنے کیلئے طرح طرح کی تدابیر اختیار کررہی ہے مگر وباء دن بہ دن تیزی سے پھیل رہی ہے، اس وباء سے بچنے کیلئے واحد حل احتیاطی تدابیر ہیں۔
جس طرح دنیا کے سارے ممالک اس وائرس سے بچاؤ کیلئے اپنے شہریوں کو سماجی فاصلہ رکھنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں اسی طرح پاکستان کی حکومت بھی اپنے شہریوں کو سماجی فاصلہ رکھنے، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ شہریوں کی معاشی طور پر مدد کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے مگر زیادہ تر شہریوں کی معاشی حالت بالکل ابتر ہوچکی ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں شہری دو وقت کی روٹی بمشکل پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف بہ عمل ہیں مگر دوسری طرف وہ شہری اپنے بچوں کی مستقبل کے حوالے سے بھی کافی تشویش میں مبتلا ہیں۔
آج ہم کورونا سے سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنے والے ڈاکٹرز کو سلام پیش کررہے ہیں اور ان کے تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ فرنٹ لائن سپاہی ماضی میں طالب علم تھے اور اب ان کے جانشین مستقبل کے ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافی اور دیگر شعبوں سے وابسطہ طالب علم طبقہ اس مشکل وقت میں کن اذیتوں میں مبتلا ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ جامعات میں پڑھنے والے زیادہ تر طلباء اپنی فیس خود ادا کرتے ہیں اور فیس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جامعات کے کئی طلباء فارغ اوقات میں ٹیوشن اور اسکول میں اساتذہ کے فرائض سر انجام دیتے ہیں مگر اب چونکہ تعلیمی اداروں کی بندش کو کئی ماہ ہوچکے ہیں اور اسی وجہ سے زیادہ تر طلباء کی ذریعہ آمدن بند ہوچکی ہے اور وہ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ لہذا اس مشکل وقت میں جہاں حکومت دیگر شعبوں سے وابسطہ افراد کے مسائل کو زیر غور لا رہی ہے وہیں طلباء کو درپیش مسائل پر بھی خصوصی طور پر ایک میٹنگ کرنی چاہیے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے طلباء مالی بحران کا شکار ہیں جبکہ ایچ ای سی کے دو ٹوک بیان (فیس معاف نہیں ہوگی) سے کئی طلباء کو بہت مایوسی ہوئی ہے۔ اب ایک طرف طلباء فیسوں کے حوالے سے پریشان ہیں تو دوسری طرف ان پر آن لائن کلاسز کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ جامعات میں پڑھنے والے طلباء کی اکثریت کا تعلق ریموٹ ایریائز سے ہے جہاں ان گنت مسائل اور آن لائن کلاسز لینے میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ جب ہم (طلباء) آن لائن کلاسز کا شکوہ کرتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں یہی صورتحال ہے لہذا آن لائن کلاسز کے علاوہ کوئی اور حل نہیں۔
یہاں یہ بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں وہ تمام تر سہولیات مُیسر ہیں جو کہ آن لائن کلاسز کیلئے ضروری ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں آن لائن کلاسز لینے والے طلباء ان سہولیات سے قاصر ہیں لہذا طلباء کے مستقبل کو تباہی سے بچایا جائے۔
مجھ سمیت بہت سے طلباء ایچ ای سی اور حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یا تو سیمسٹر کی مکمل فیس معاف کی جائے یا 75 فیصد فیس معاف کی جائے۔ اس کے ساتھ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ آن لائن کلاسز کا متبادل حل پیش کیا جائے اور طلباء کے تابناک مستقبل کو بڑی تباہی سے بچائیں اور خدارا طلباء کے حال پر رحم کریں۔
درج بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہوسکتی ہے، آج نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔