دنیا بھر میں کورونا وائرس نے معمولات زندگی کو شدید طریقے سے مفلوج کیا ہے، کاروبار اور انڈسٹری کا پہیہ رکنے سے دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں سکڑ گئی ہیں، امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس وقت بحران کا شکار ہے۔ دوسری جانب ترقی پزیر ممالک میں بھی اس وائرس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، عالمی وباء کے باعث جہاں دوسرے شعبے متاثر ہوئے ہیں وہیں دنیا بھر میں تعلیم کے نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ کئی ماہ سے بند رہنے والے اسکولز، کالجز اور جامعات اب مالی بحران کا شکار نظر آتی ہیں بعض ممالک میں آن لائن کلاسز کی سہولیات موجود ہونے کی وجہ سے وہاں پر طلباء کو گھر بیٹھے کلاسز دی جارہی ہیں۔
پاکستان میں بھی اب مختلف یونیورسٹیز نے آن لائن کلاسز شروع کردی ہیں تاہم طلباء سہولیات کی عدم فراہمی پر سیخ پا ہیں اور انتظامیہ کے فیصلوں کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے آج کل کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت ہر ایک کے پاس میسر ہے، شاید بعض دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلباء کے پاس انٹرنیٹ یا دیگر سہولیات نہ ہوں لیکن ان کیلئے یونیورسٹیز کو کوئی لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق کچھ ایسے لوگ بھی انٹرنیٹ کی دستیابی نہ ہونے کا رونا رو کر آن لائن کلاسز کی مخالفت کر رہے ہیں جو لاک ڈاؤن کے دوران نیٹ فلیکس اور دیگر ویب سائٹس پر پورا دن مصروف رہتے تھے۔ اس وقت شاید ان کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔
موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم طلباء کے مستقبل کو بچانا چاہتے ہیں تو آن لائن کلاسز شروع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر کچھ طلباء کیلئے مسائل ہیں تو یونیورسٹیز پر لازم ہے کہ ایسا طلباء کے مسائل کو فوری حل کرے تاکہ مستقبل کے معماروں کا مستقبل بچایا جائے۔
کورونا وائرس کی یہ وباء کب تک برقرار رہے گی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی کسی کو اس بات کا علم ہے۔ جہاں حکومت نے مختلف شعبوں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے تو وہیں جامعات کو بھی ایس او پیز کے تحت کھولنے کا فیصلہ کیا جانا چاہیئے۔
دیکھا جائے تو بازاروں، ٹرانسپورٹ اور دیگر عوامی مقامات پر حکومت کی ایس او پیز پر ایک فیصد بھی عمل درآمد نہیں ہورہا ہے لیکن میں یہ بات یقین کہ ساتھ کہنے کیلئے تیار ہوں کہ اگر تعلیمی اداروں، خاص طور پر کالجز اور جامعات کو کھولا جائے تو وہاں پر ایس او پیز کو فالو کیا جاسکتا ہے اور کروایا بھی جاسکتا ہے۔
درج بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہوسکتی ہے، آج نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔