ایک طرف کورونا وائرس کی وباء سے جہاں پوری دنیا متاثر ہے وہیں پاکستان بھی اس وباء کی لپیٹ میں ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس وباء سے نمٹنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کررہے ہیں لیکن تاحال اس وباء پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں پاکستان میں کورونا سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم چیلنج تعلیمی اداروں کی بندش بھی ہے۔ تین ماہ سے تعلیمی ادارے مکمل بند ہیں جبکہ وباء کے پیش نظر ہاسٹل میں رہائش پذیر طلباء سے ہاسٹلز کو بھی خالی کروالیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آبائی علاقوں کو جاچکے ہیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں لوگوں کی حالت معاشی طور پر ابتر ہوچکی ہے وہیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے دو ٹوک الفاظ میں فیسوں کی معافی کا مطالبہ یکسر مسترد کردیا ہے بہر حال اس تمام صورتحال کے بعد اب ایک نیا ایشو آن لائن کلاسز کا سامنے آیا ہے جوکہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرنا بے حد ضروری ہے چونکہ بارہویں جماعت تک کے طالب علموں کو پروموٹ کردیا گیا ہے، اب مسئلہ جامعات کا ہے جس پر ابھی تک گومگوں والی صورتحال ہے۔
ایچ ای سی کی طرف سے ابھی تک آن لائن کلاسز کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی ہے، آن لائن کلاسز کا انعقاد ضرورتِ وقت ہے مگر ایچ ای سی کو صرف اپنے اردگرد نہیں بلکہ سکے کے دوسری طرف بھی دیکھنا چاہیئے کیونکہ جامعات میں صرف مقامی لوگ زیر تعلیم نہیں ہوتے بلکہ ملک کے دوسرے شہروں سے بھی لوگ حصول علم کے لیے آتے ہیں۔ اب چونکہ کورونا وباء کی وجہ سے تمام نظامِ زندگی مفلوج ہوچکا ہے جس طرح نظام زندگی کے دیگر شعبے متاثر ہوئے اسی طرح تعلیمی اداروں کے حوالے سے بھی پریشانی لاحق ہے۔
جامعات میں وہ طلباء بھی زیر تعلیم ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان (سابقہ فاٹا) اور بلوچستان سے ہے۔ ان دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں تھری جی، فور جی انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں تو اس صورتحال میں آن لائن کلاسز کا انعقاد گلگت بلتستان اور بلوچستان کے طلباء کے مستقبل کے ساتھ محض ایک کھلواڑ ہی ہے لہذا اگر ایچ ای سی نے اس اقدام سے پہلے نظر ثانی نہ کی تو ان علاقوں کے طلباء کا آن لائن کلاسز میں شرکت کرنا ناممکن ہوگا کیونکہ ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے ایسے میں وہاں کے طلباء کیسے آن لائن کلاسز میں شرکت کرینگے؟ لہذا آئن کلاسز سے بہتر ہے کہ یا تو ایس او پیز کے تحت جامعات فوری طور پر کھولے جائیں کیونکہ جامعات میں طلباء عمر کے اس لیول پر ہوتے ہیں کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کرسکتے ہیں۔
جامعات کے طلباء بہتر طور پر سماجی فاصلے کی پابندی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں، اگر آن لائن کلاسز کی بجائے ایس او پیز کے تحت جامعات کھولی جائیں تو یہ عمل زیادہ سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ اگر ایس او پیز کے تحت جامعات کھولنا نا ممکن ہے تو پھر حتمی آپشن یہ ہے کہ طلباء کو بغیر امتحانات کے پروموٹ کردیا جائے۔
آن لائن کلاسز کا انعقاد اساتذہ اور طلباء دونوں کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ آن لائن کلاسز کی وجہ سے بہت سے طالب علموں کے مستقبل پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ ایچ ای سی کو جلد از جلد جامعات کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنا چاہیئے۔