سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر جمعے کی صبح وکیل صفائی منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے جمعے کی شام سنایا گیا۔
صدارتی ریفرنس مسترد کرنے کا فیصلہ تو بینچ نے نو کے مقابلے میں ایک کی اکثریت کے ساتھ دیا تاہم بینچ کے سات ججز نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ایف بی آر آئندہ 60دنوں میں ٹیکس کے معاملے کی تحقیقات مکمل کرے اور اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی جائے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیاکہ اگر اس تحقیقات میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی چیز سامنے آتی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت از خود نوٹس لے کر کارروائی کر سکتی ہے۔
جن ججز نے یہ معاملہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس مظہر عالم، جسٹس قاضی امین، جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس فیصل عرب شامل ہیں۔
اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے سے جن تین ججز نے اختلاف کیا ان میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی شامل ہیں۔
فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟
اس مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر اس معاملے میں درخواست گزار کے اہلخانہ کو سات روز میں نوٹس جاری کرے اور ان سے لندن میں جائیداد کے بارے میں تفیصلات اور آمدن کے ذرائع بھی پوچھے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر 60 دن میں کارروائی مکمل کرے۔
اس کے علاوہ عدالت نے کہا ہے کہ کارروائی مکمل کرنے کے بعد ایف بی آر کے چیئرمین 75 دن میں رپورٹ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو جمع کرائیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر 100 دن تک ایف بی آر کی طرف سے رپورٹ نہ آئی تو سپریم کورٹ کے رجسٹرار محکمے سے جواب مانگیں اور ایف بی آر کے چیئرمین کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہوگی۔