گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں کورونا کے علاوہ ٹائیفائیڈ بخار میں مبتلا مریضوں کی بڑی تعداد داخل ہوئی ہے جس کے بعد ماہرین تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا ملک میں ٹائیفائیڈ بھی پھیل رہا ہے یا اس کا کورونا وائرس سے کوئی تعلق ہے۔
بالخصوص صوبہ بلوچستان کے کئی شہروں میں کورونا کے ساتھ ساتھ ٹائیفائیڈ کی بیماری کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق بچے بھی بڑی تعداد میں اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔
کوئٹہ کے دو بڑے سرکاری ہسپتالوں سول ہسپتال اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں فرائض انجام دینے ولے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں کوئٹہ، پشین، چمن، مستونگ، بولان، سبی، نصیرآباد ،تربت اور دیگر علاقوں میں ’ملٹی ڈرگ ریزیسٹنٹ‘ یعنی ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے ٹائیفائیڈ کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔
سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ میڈیسن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خالد شاہ کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ کی یہ قسم خطرناک شکل اختیار کر گئی ہے اور اب بیشتر ادویات اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
'ٹائیفائیڈ کی یہ جدید شکل اب پھیل رہی ہے اور صرف سول ہسپتال کوئٹہ میں قائم ایک وارڈ میں دو ماہ کے دوران تقریباً 60 سے 70 ایسے مریضوں کو لایا گیا ہے جن میں ’ملٹی ڈرگ ریزیسٹنٹ‘ یا ’ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ‘ کی تشخیص ہوئی۔'
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے شعبہ متعدی امراض کی پروفیسر ڈاکٹر نسیم نے بتایا کہ 'بہت سے لوگوں نے یہ شکایت کی ہے کہ انہیں کورونا کے ساتھ ٹائیفائیڈ بھی ہے یا وہ کہتے ہیں کہ علامات کورونا کی ہیں لیکن تشخیص ٹائیفائیڈ کی ہوئی ہے۔ اس کی درست تحقیقات کے لیے مزید بہتر ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے۔'
اسلام آباد کے ہی ایک بڑے نجی ہسپتال شفا انٹرنیشنل کے شعبہ وائرل ڈیزیز کے ڈاکٹر اعجاز احمد نے بتایا کہ 'ٹائیفائیڈ اور کورونا وائرس کا ایک دوسرے سے براہ راست تعلق ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے، کورونا ایک وائرس ہے اور انسانوں میں ایک دوسرے سے پھیل رہا ہے جبکہ ٹائیفائیڈ بخار کھانے پینے میں بے احتیاطی سے ہوتا ہے۔'
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ 'پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس وقت تین طرح کی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، کورونا وائرس، ٹائیفائیڈ اور انفلوئنزا۔'
ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ ان وائرس کی علامات کچھ حد تک مماثلت رکھتی ہیں اس لیے لوگوں کو کورونا کا شبہ ہو رہا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا کیمپس کراچی میں کورونا وارڈ کے انچارج پروفیسر امان اللہ عباسی کے مطابق کورونا وائرس اور ٹائیفائیڈ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور اس بات کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔
تاہم ان کے مطابق ٹائیفائیڈ وہ وائرس ہے جو انسانی جسم میں موجود رہتا ہے اور قوت مدافعت کم ہونے کی صورت میں اثر دکھاتا ہے۔
کورونا وائرس کا شکار افراد کی قوتِ مدافعت انتہائی کم ہو جاتی ہے، پھر چاہے وہ صحت یاب بھی ہو جائیں تو اس بات کا امکان رہتا ہے کہ ٹائیفائیڈ یا کوئی اور وائرس کمزور قوتِ مدافعت کی وجہ سے حملہ آور ہو۔ اس سے زیادہ کورونا اور ٹائیفائیڈ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔'
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل کراچی اور حیدرآباد سمیت پاکستان کے صوبہ سندھ کے دیگر شہروں میں ٹائیفائیڈ کے ہزاروں کیسز سامنے آنے کے بعد نومبر 2019ء میں پاکستان دنیا کا پہلا ملک بنا جس نے عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ ٹائیفائیڈ سے بچاﺅ کی ویکسین ’ٹی سی وی ‘ کا استعمال شروع کیا۔
اس وقت صوبہ سندھ کی حکومت نے دو ہفتوں کی مہم کے دوران لاکھوں بچوں کو ٹائیفائیڈ سے بچاﺅ کی ویکیسن لگائی ہے۔