سپریم کورٹ آف پاکستان میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ڈیم فنڈ کا پیسہ سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے۔ جب بھی ضرورت ہو واپڈا عدالت کو رقم کی فراہمی کا کہہ سکتا ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پیر کو دیامر بھاشا ڈیم کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کا کنٹریکٹ تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے۔ واپڈا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈیم پر کام شروع ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کب مکمل ہوگی؟ چئیرمین واپڈا نے کہا کہ یہ ڈیم جولائی 2028 میں مکمل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ مہمند ڈیم پر تعمیر کی کیا صورتحال ہے؟ واپڈا کے وکیل نے بتایا کہ مہمند ڈیم پر کام شیڈول کے مطابق جاری ہے۔
چیئرمین واپڈا نے عدالت کو بتایا کہ مہمند ڈیم کا پہلا یونٹ 2024 میں آپریشنل ہو جائے گا جبکہ اس ڈیم کے تینوں یونٹ جولائی 2025 میں مکمل ہو جائیں گے۔
عدالت کے استفسار پر چئیرمین واپڈا نے بتایا کہ وفاق کی جانب سے فی الحال فنڈز کا کوئی مسئلہ نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈیمز کی مقررہ وقت پر تعمیر بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ عوام ڈیمز کی تعمیر سے منسلک تمام افراد کے مشکور ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر واپڈا کو ڈیمز کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ درپیش ہو تو آگاہ کرے۔
دوران سماعت سپریم کورٹ نے بیرون ملک سے ڈیم فنڈ میں جمع کروائی جانے والی رقوم کی تفصیلات اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے طلب کیں۔
اسٹیٹ بینک کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ڈیم فنڈ سٹاک ایکسچینج میں انویسٹ کیا جائے تو زیادہ منافعے کے ساتھ خطرہ بھی ہوگا۔ اس لیے ڈیم فنڈ کا پیسہ جہاں انویسٹ کیا گیا ہے وہاں نفع بھی ٹھیک ہے اور سکیورٹی بھی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے حکام نے مزید بتایا کہ ڈیم فنڈ میں رقم جمع کرانے کے حوالے سے ایمبیسیز کو خط لکھ دیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خط لکھنے سے کیا ہوگا؟ کسی سے فون پر بات کریں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کوئی پاکستانی ایسی جگہ سے پیسے بھیجنا چاہتا ہو جہاں پاکستانی بینک نہ ہو تو ایسی صورت میں متعلقہ سفارتخانوں کو رقوم کی پاکستان منتقلی کا پتا ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ڈیم میں جو زمین استعمال ہو رہی ہے اس میں جو مسئلے ہیں حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ مہند ڈیم میں عثمان خیل اور برہان خیل کی زمین کا مسئلہ چل رہا ہے۔
واپڈا حکام نے بتایا کہ 'وہاں 32 گھرانے ہیں اور وہ زمین ابھی ہمیں درکار نہیں۔ پہلے مرحلے میں جو زمین چاہیے تھی وہ ہم حاصل کر چکے ہیں۔ مہند ڈیم کی تعمیر کے لیے ٹھیکدار نے اپنا کام شروع کر رکھا ہے۔'
عدالت نے کیس کی سماعت 6 ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔