امریکی تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے 11/9 حملوں میں القاعدہ کے دو ہائی جیکرز کی مدد کرنے کے الزام میں ایک سعودی سفارتکار کے نام حادثاتی طور پر ظاہر کردیا۔
رپورٹ کے مطابق ایف بی آئی کے ایک عہدیدار نے یہ انکشاف ایک نائن الیون متاثرین کے اہل خانہ کی طرف سے قانونی چارہ جوئی کے جواب میں کیا، جس کے مطابق سعودی حکومت حملوں میں ملوث تھی۔
ایف بی آئی کے انسداد دہشت گردی ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جِل سنورن کی طرف سے فائل اپریل میں دی گئی لیکن گزشتہ ہفتے کے آخر میں ان کی سیل کھولی گئی۔
مسعود احمد الجراح کا نام "غلطی" سے اعلامیے میں شامل کیا گیا، مسعود احمد سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ایک درمیانی سطح کے اہلکار تھے جسے 1999 اور 2000 میں واشنگٹن ڈی سی میں سعودی سفارت خانے میں تعینات کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق وہ سعودی عرب کی مالی امداد سے چلنے والی مساجد اور اسلامی مراکز میں وزارت اسلامی امور کے ملازمین کی سرگرمیوں کی نگرانی کے انچارج تھے۔
ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق مسعود احمد نے دو افراد ایک عالم دین فہد التمری اور مشتبہ سعودی ایجنٹ عمر البیومی کو ہدایت کی کہ وہ حملوں سے قبل جنوری 2000 میں دو ہائی جیکرز کو امریکا میں آباد کرنے میں مدد کریں۔
رپورٹ کے مطابق مسعود احمد الجراح کا پتہ نہیں چل سکا ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں ہیں۔
رپورٹ سے متعلق محکمہ انصاف سے رابطہ کیا گیا لیکن عہدیداروں نے عدالت کو مطلع کیا اور ایف بی آئی کا اعلامیہ واپس لے لیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ "دستاویزات غلطی سے کیس میں فائل ہوگئے"۔
واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو دہشت گردوں نے ہائی جیک کیے گئے 2 طیارے نیویارک میں موجود ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ایک کے بعد ایک ٹکرا دیئے تھے۔
اس حملے میں 3 ہزار امریکی اور غیر ملکی باشندے مارے گئے اور 6 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ 10 ارب ڈالر کا مالی نقصان بھی ہوا تھا۔
اسی روز دو مزید طیارے بھی ہائی جیک کیے گئے، جن میں سے ایک پینٹاگون کے قریب اور دوسرا جنگل میں گر کر تباہ ہوا تھا۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے فوری بعد دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر نے جنم لیا تھا۔
امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم "القاعدہ" اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا تھا، تاہم ناکافی ثبوتوں کے باوجود اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اسامہ کے میزبان ملک افغانستان پر جنگ مسلط کردی تھی، جس کے بعد سے دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
امریکا، اسامہ بن لادن کو اپنا اولین دشمن قرار دیتا تھا اور اس کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 میں امریکا نے اسامہ بن لادن کو ابیٹ آباد میں ایک آپریشن کے دوران ہلاک کردیا۔
نائن الیون کے حملے نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی "بش ڈاکٹرائن" کو جنم دیا جس کے تحت افغانستان، شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا۔
2001 کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ کے نتیجے میں لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتاناموبے جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔
اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا اور یہاں شدت پسندی بڑھی اور دہشت گردی کے واقعات میں 50 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جانیں گئیں۔
جس کے بعد پاکستان کو ان دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے ضرب عضب، ردالفساد سمیت مختلف فوجی آپریشنز کرنے پڑے۔