اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کورونا وائرس کے باعث مارچ سے ملک بھر میں نافذالعمل لاک ڈاؤن میں 9 مئی سے نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے خوف تھا کہ ہمارا بہت بڑا طبقہ دیہاڑی دار اور چھابڑی والے ہیں، اس کی اکثریت 80 فیصد ہے، خوف تھا جب سب بند کر دیا تو جو لوگ روز کماتے ہیں ان کیا بنے گا۔
ان کا کہنا تھا فخر ہے ہمارے ملک میں کورونا کی اس طرح پیک نہیں آئی جس طرح یورپ کے حالات ہیں، اللہ کا کرم ہے پاکستان پر ایسا پریشر نہ پڑا جیسا یورپ میں تھا، ہم سوچتے رہے کہ کونسا وقت ہو کہ ہم لاک ڈاؤن کو کم کریں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس تیزی سے پھیلتا ہے لیکن سماجی فاصلے سے وائرس کا پھیلنا رک جاتا ہے، وائرس سے ہمارا گراف ابھی اوپر جا رہا ہے، ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں تیزی سے وائرس نہ پھیلے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے ہفتے سے مرحلہ وار لاک ڈاؤن کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم نے جو فیصلہ کیا وہ تمام صوبوں سے مل کر کیا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ عوام کو ذمہ داری لینا پڑے گی، اگر اس مشکل مرحلے سے نکلنا ہے تو حکومت ڈنڈے کے زور سے نہیں بولے گی، حکومت اور پولیس کیا کیا کام کرسکتی ہے؟ کیا ہم پکڑ کر لوگوں کو جیلوں میں ڈالیں اور وہاں ٹیسٹ کریں، یہ کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ ٹائیگر فورس کو کہا ہے کہ لوگوں کو جاکر بتائیں یہ آپ کے بھلے کے لیے ہے، اگر پھر سے کیسز بڑھ گئے تو ہمیں پھر سے سب بند کرنا پڑے گا جس کا نقصان عام اور غریب لوگوں کو ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ذمہ دار شہری بن کر وائرس کے اثرات سے بچنے کے لیے سب ایس او پیز پر عمل کریں، امید ہے ایک قوم بن کر اگلے مرحلے میں جائیں گے۔
عمران خان نے بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر ہمارا پوری طرح اتفاق نہیں ہے، میرا خیال ہے اسے کھلنا چاہیے کیونکہ یہ عام آدمی استعمال کرتا ہے، اسد عمر سے کہا ہے کہ صوبوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے پر مشاورت کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ سوا لاکھ پاکستانی اس وقت باہر پھنسے ہوئے ہیں، جب وہ لوگ پاکستان آتے ہیں تو انہیں ٹیسٹ کرنا پڑتا ہے اور پھر قرنطینہ میں رکھنا پڑتا ہے، کوشش کر رہے ہیں کہ صوبوں سے بات کریں اور سیلف قرنطینہ کریں، ہمارے پاس کبھی قرنطینہ کی سہولیات اتنی نہیں ہوں گی کہ لوگوں کو لاکر قرنطینہ کریں، بہتر ہوگا لوگ خود گھروں پر آئسولیٹ ہوں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مغرب میں اصل تباہی اولڈ ہومز میں پھیلی ہے اور وہاں ہلاکتیں بہت ہوئیں لیکن ہمارا فیملی سسٹم ہے، ہم بزرگوں کی ذمہ داری لیتے ہیں، خطرہ یہ ہے کہ مثبت آنے والے نوجوان کی وجہ سے بزرگ کی جان خطرے میں پڑسکتی ہے۔