جمہوریہ چیک میں ایک سیاست دان کا دعویٰ ہے کہ روس نے انہیں قتل کرنے کا ایک خفیہ منصوبہ بنایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کو (روس کی جانب سے) درپیش خطرات حقیقی ہیں اور انہیں اپنی جان کا خوف ہے۔
جمہوریہ چیک کے ہی تین ددیگر سیاست دان دارالحکومت پراگ میں مسلسل 24 گھنٹے پولیس کی نگرانی میں زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ روس کی جانب سے انہیں خفیہ طریقے سے زہر دے کر ہلاک کیے جانے کا مبینہ منصوبہ بن چکا ہے۔
تاہم روس نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
پراگ کی سکستھ ڈسٹرکٹ کے میئر اوڈریج کولر نے ایک نامعلوم مقام سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’یہ بہت مشکل ہے۔‘ پراگ کے میئر جس نامعلوم مقام پر موجود تھے وہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
بذریعہ سکائپ برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ میں نے طویل عرصے سے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا نہ ہی وہ مجھے دیکھ پائے ہیں۔ حتیٰ کہ میرا خاندان یہ بھی نہیں جانتا کہ میں اس وقت کہاں موجود ہوں۔
اب وہ بیرونی دنیا سے صرف سکائپ کے ذریعے ہی رابطہ قائم کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جن پر میں تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن جو میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ چیک پولیس اور خفیہ ایجنسی دونوں کے پاس کچھ خفیہ معلومات ہیں کہ شاید روس کی جانب سے براہ راست کوئی خطرہ ہے۔
اس خطرے کی نوعیت کو ابتدا میں جمہوریہ چیک کے ایک ہفتہ وار شائع ہونے والے میگزین ’ریسپکٹ‘ میں مختصر مگر ھماکہ خیز انداز میں پیش کیا گیا۔ یہ مضمون ایسے لکھا گیا تھا جیسا کہ اسے کسی جاسوسی ناول سے اخد کیا گیا ہو۔
تین ہفتے پہلے اس مضمون میں نامعلوم انٹیلیجنس ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ روس سے سفارتی پاسپورٹ پر پراگ ایئر پورٹ پر آنے والے ایک شخص کے پاس ایک سوٹ کیس ہے جس میں جان لیوا زہر ’رائسن‘ موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق سفارتی پاسپورٹ پر سفر کرنے والے روسی شخص کو ایئرپورٹ سے ایک کار لینے آئی جس پر روسی سفارتی نمبر پلیٹ لگی تھی۔ وہ کار انہیں روسی سفارت خانے لے گئی جو پراگ کے میئر کے آفس سے زیادہ دور واقع نہیں ہے۔
ریسپکٹ کا دعویٰ ہے کہ چیک خفیہ ایجنسی کی نظر میں یہ شخص دو شہروں کے سیاست دانوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے جنہوں نے حالیہ مہینوں میں ماسکو کو اشتعال دلایا تھا۔ ان سیاست دانوں میں اوڈریج کولر اور زڈینیک ہریب شامل ہیں۔
میئر ہرب نے حال ہی میں روسی سفارت خانے کے سامنے واقع علاقے کا نام تبدیل کر کے ’بوریس نیمٹسوف سکوائر‘ رکھنے کی منظوری دی ہے۔ بوریس نیمٹسوف روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے مخالف ہیں جنہیں سنہ 2015 میں قتل کیا گیا تھا۔
اگلے ہی روز ایک اور شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ ماسکو کے تیسرے نقاد اور جمہوریہ چیک کے سیاست دان میئر پاویل نووٹنی بھی روس کی جانب سے درپیش خطرے کے باعث پولیس کی تحویل میں جا چکے ہیں۔
ان الزامات کی روس نے انتہائی سخت اور واضح الفاظ میں تردید کی ہے۔ روس نے کہا ہے کہ یہ الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔
صدر پوتن کے ترجمان درمتی پسکو نے میگزین میں شائع ہونے والے مضمون کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب جمہوریہ چیک کی حکومت بھی اس معاملے پر چپ سادھے بیٹھی ہے اور کوئی تصدیقی یا تبصرہ نہیں کر رہی۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ وہ میڈیا میں شائع ہونے والی خفیہ معلومات پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔
اگرچہ انہوں نے یہ تصدیق کی کہ روسی سفارتکار ایئر پورٹ پر آئے تھے اور شاید وہ ان چند فلائٹس میں سے کسی ایک پر تھے جو کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن کے باوجود آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جب پوری دنیا کے سامنے یہ حیرت انگیز الزامات سامنے آئے تو غم و غصہ، عدم اعتماد اور تضحیک پر مبنی ملے جلے جذبات کو ترغیب ملی۔ صحافیوں اور سفارت کاروں نے اپنے فون پر رابطے کرنا شروع کیے۔ ہر شخص شکوک و شبہات کا شکار ہے۔
کسی یورپی دارالحکومت کے میئر کا قتل جنگی اقدام کے مترادف ہو گا۔ یہ روس کے لیے منفی اثرات کا حامل ہو گا ۔
جمہوریہ چیک کے اندر موجود ایک مخالف انٹیلیجنس ذریعے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ابھی اصل حقائق کی تصدیق نہیں ہوئی۔ لیکن تردید سے بہت دور میڈیا رپورٹس اورایک ذریعے نے مجھے بتایا ہے کہ وہ حقائق سے متعلق معلومات کو بنیاد بنا رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں وڈریج کولر نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں روسی خفیہ ایجنسی اور اس کے ایجنٹ نے مسٹر سکریپل کو اعصاب شکن زہریلے مواد سے نشانہ بنایا تھا۔‘
سنہ 2018 میں سرگئے سکرپیل اور ان کی بیٹی کو برطانیہ کے علاقے ولیٹ شائر میں زہریلے اور اعصاب شکن مواد سے نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا تھا۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے وہاں روسی انٹیلیجنس نے اپنے ایجینٹس بھجوائے تھے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ جب ان (روس) میں برطانیہ میں یہ سب کرنے کی جرات ہے تو وہ پراگ میں ایسا کیوں نہیں کریں گے؟