مقبوضہ کشمیر میں پولیس کے سائبر سیل کے سربراہ کو ایک صحافی سے ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کے حوالے سے پوچھ گچھ کرنا اس لیے مہنگا پڑ گیا، کیونکہ کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ان کی بھارتی وزیراعظم کے خلاف کی گئی اپنی ہی ایک پرانی پوسٹ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی، اور لوگ ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے۔
بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق پولیس سپرنٹنڈنٹ طاہر اشرف نے منگل کو کشمیری خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کو ان کی "ملک مخالف" سوشل میڈیا پوسٹس پر تفتیش کے لیے بلایا اور ان سے پوچھ گچھ کی۔
کچھ ہی گھنٹوں کے بعد لوگوں نے اس پر ردعمل دینا شروع کیا اور اُن کی ایک پرانی ٹویٹ بھی سامنے آگئی جو انہوں نے 2002 میں بھارتی گجرات میں ہونے والے فسادات کے بعد کی تھی۔
اس ٹویٹ میں پولیس افسر نے گجرات میں ہونے والے ہنگاموں پر نریندر مودی کے ایک ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیا تھا جس میں اس وقت کے وزیراعلیٰ مودی نے کہا تھا کہ 'اگر کتے کا بچہ بھی کار کے نیچے آ جائے تو ان کو تکلیف ہوگی۔'
طاہر اشرف نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کی تھی کہ 'نریندر مودی کی کتے کے بچے کی کہانی سے ان کا اصل کردار ظاہر ہوتا ہے۔ قصاب۔'
اینگری کنگری نامی ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا ہے کہ 'میرے خیال میں پُرجوش سائبر پولیس کو انہیں گرفتار کرنا چاہیے۔ برائے مہربانی سوشل میڈیا کو صاف کرنے میں مدد کریں۔'
I guess the enthusiastic cyber police needs to book this person @Tahir_A.
Please help purify social media @listenshahid. #FreeSpeech is not absolute. @narendramodi. https://t.co/vfbuwHKtKH pic.twitter.com/RxPqyDEv2Z
— AngryKangri (@qazizaid89) April 21, 2020
ایک صارف مصعب بن عمیر نے لکھا ہے کہ 'طاہر اشرف خود کو گرفتار کرلو۔ تمہاری ٹویٹ ملکی خود مختاری کے خلاف ہے۔'
مقبوضہ کشمیر کی نوجوان فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس کی وجہ سے بھارتی حکومت کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مسرت زہرہ پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس کے ذریعے کشمیریوں کو بھارتی حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اکسایا ہے۔