لاہور: مائیکل ایتھرٹن کا شمار انگلینڈ کے انتہائی معزز کرکٹرز میں ہوتا ہے۔ 1989 سے 2001 پر مشتمل اپنے کیرئیر میں انہوں نے 115 ٹیسٹ اور 54 ایک روزہ میچز کھیلے۔ وہ دی ٹائمز کے چیف کرکٹ کوراس پونڈنٹ بھی ہیں۔
ایتھرٹن مارچ کے آغاز میں پاکستان آئے تھے جہاں وہ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی سے متعلق ایک دستاویزی فلم پر کام کررہے تھے جوممکنہ طور پر پاکستان کے دورہ انگلینڈ سے قبل نشر کی جائے گی۔
اس دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈیجٹل ڈیپارٹمنٹ نے ایک خصوصی پوڈکاسٹ تیار کیا، جس میں سابق انگلش کرکٹر نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے پاکستان کرکٹ کے ساتھ اپنے تعلقات سمیت نئے میڈیا کے ارتقاء اور 2008 میں کرسٹوفر مارٹن کی جگہ دی ٹائمز میں صحافت کے آغاز سے متعلق اپنے سفر پر گفتگو کی۔
مائیکل ایتھرٹن سے خصوصی انٹرویو کیا سوال و جواب ہوئے؟ ذیل میں ملاحظہ کریں۔
سوال: دنیائے کرکٹ میں پاکستان اور انگلینڈ کے تعلقات بہت اہم ہیں۔ 1996سے قبل پاکستان کرکٹ ٹیم کا انگلینڈ میں کبھی بہت اچھا استقبال نہیں کیا جاتا تھا مگر اُس سال آپ اور وسیم اکرم کی موجودگی نے دونوں ٹیموں کے درمیان تعلقات کو یکسر بدل دیا۔ کیا اس کی وجہ آپ دونوں کی لنکا شائر کاؤنٹی سے وابستگی تھی؟
مائیکل ایتھرٹن: میرے خیال میں لنکا شائر کنکشن نے اس ضمن میں مدد کی۔ وسیم اکرم 88-1987 میں لنکا شائر آئے اور یہ وہی وقت تھا جب میں نے بھی لنکا شائر کاؤنٹی کو جوائن کیا تھا۔ میں پہلے تین سال 87 سے 89 تک میں یونیورسٹی میں رہا مگر پھر موسم گرما کے درمیان کھیلنےآگیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے تقریباً دس سال وسیم اکرم کے ساتھ اولڈ ٹریفورڈ میں کرکٹ کھیلی لہٰذا میں انہیں اچھی طرح جانتا تھا۔میں انگلینڈ اور وہ پاکستان کو جتوانا چاہتے تھے۔ پاکستان ایک بہت اچھی ٹیم تھی۔ انہوں نے ہمیں 0-2 سے شکست دی لیکن اس دوران کھلاڑیوں کے مابین تعلقات خوشگوار رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مکمل طور پر میرے اور وسیم کی وجہ سے تھا، مگر میرے خیال میں 10 سال اولڈ ٹریفورڈ پر کرکٹ کھیلنے کے باعث ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے اور اس سے (دونوں ٹیموں کو) مددملی۔
سوال: آپ پاکستان کرکٹ کی بہت تقلید کرتے ہیں،کیا آپ اس نظریئے کی تائید کرتے ہیں کہ اپنے ملک میں کرکٹ نہ کھیلنے کے باعث بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی پیشرفت متاثر ہوئی؟
مائیکل ایتھرٹن: یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ 2009 کے حملے کے باعث پاکستان میں 7 یا 8 سال بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہوئی۔ ہر نقطہ نظر سے متحدہ عرب امارات میں کرکٹ کھیلنا آسان نہیں تھا۔
کھلاڑی مسلسل گھروں سے دور رہتے اور خالی میدانوں میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کس ٹیم کوسال کے 12 ماہ سڑک پر کھیلنا پڑا؟ اس دوران پی سی بی کے لیے مالی لاگت بھی خاصی اہمیت کی حامل ہوگی۔
ان سب نقصانات کے باوجود پاکستان کے لیے ایک مسابقتی ٹیم اور ملک میں کھیل کی اس قدر تقلید برقرار رکھنا پاکستان میں اس کھیل سے محبت کی واضح دلیل ہے۔ اب یہاں کرکٹ کی واپسی دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔
سوال: پاکستان سپر لیگ کا آغاز 2016 میں ہوا مگر یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایونٹ کا مکمل ایڈیشن پاکستان میں ہوا، (لیگ کا) یہ سیزن پاکستان کرکٹ پر کیا اثرات مرتب کرے گا؟
مائیکل ایتھرٹن: آپ کو صرف اپنے اردگرد ہر میچ کے دوران (عوام کا )ہجوم، جوش و خروش اور کھچا کھچ بھرے اسٹیڈیم دیکھنے چاہیے۔
اہم بات یہ ہے کہ تمام غیرملکی کھلاڑی جان گئے ہیں کہ وہ اب یہاں محفوظ ہیں اور وہ یہ پیغام اپنےاپنے ملک لے جاکر دیگر کھلاڑیوں کو بھی پہنچائیں گے۔
میں گذشتہ شب (8مارچ)، پرل کنٹیننٹل ہوٹل کے کیفے میں تھا اور وہاں 8 سے 9 برطانوی کھلاڑی موجود تھے، جن میں معین علی، روی بوپارہ، ٹام بنٹن، لوئس گریگری اورلیام ڈاسن وغیرہ بھی شامل تھے، اور وہ سب یہ کہہ رہے تھےکہ وہ (پی ایس ایل میں) مقابلوں سے بہت لطف اندوز ہوئے،ٹورنامنٹ کا معیار بہت اچھا رہا اور وہ یہاں خود کو بالکل محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
لہٰذا، یہی پیغام اب پیچھے جائے گا جس سے دیگر کھلاڑیوں اور ٹیموں کی پاکستان آمدممکن ہو گی۔
سوال:کیا چیز پاکستان کو دوسروں سے مختلف بناتی ہے اور کس وجہ سے پاکستان کے میچزدیکھنے میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے؟
مائیکل ایتھرٹن: جب میں پاکستان کے خلاف کھیلتا تھا تو اس وقت پاکستان کے پاس عظیم باؤلرز ہوا کرتےتھے۔ آخری مرتبہ 2000 میں یہاں میں نے جس خطرناک باؤلنگ اٹیک کا سامنا کیا اس میں وسیم اکرم، وقار یونس، مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق شامل تھے۔ اس کا مطلب ہوا کہ آپ کے پاس 4 ایسے عظیم باؤلردستیاب ہیں جو میچ جتوانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
بلاشبہ، پاکستان نے عظیم بلے باز بھی پیدا کئے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ اگر حال کی بات کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے پاس باؤلنگ کی مکمل ورائیٹی موجود ہے ،خاص طورپر وکٹ حاصل کرنے والے باؤلرز ،اس کے علاوہ تیزرفتار باؤلرز اور بہترین اسپنرز بھی دستیاب ہیں۔
میں یہ نہیں جانتا کہ پاکستان نے ہمیشہ عظیم باؤلر زہی کیوں پیدا کئے۔ میرا اندیشہ ہےکہ اس کی وجہ یہاں کرکٹ سے متعلقہ انفرسٹرکچر کی کمی ہونا ہو سکتا ہے۔ عظیم بلے باز پیدا کرنے کے لیےضروری ہے کہ آپ کے پاس بہترین سہولیات،انفراسٹرکچر اور کوچز اور ایک باقاعدہ نظام موجود ہو، لیکن میرا خیال ہے کہ ایک باؤلر کہیں سے بھی پروان چڑھ سکتا ہےاور شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان بہترین باؤلر زمتعارف کرواتارہا ہے۔
سوال: (اس سال) موسم گرما میں پاکستان نے دورہ انگلینڈ پر روانہ ہونا ہے۔ آپ اس سیریز کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مائیکل ایتھرٹن: اس (سیریز) کو لاجواب ہونا چاہیئے۔ یہ انگلینڈ کے لیے ایک بڑا سمر سیزن ہوگا، یہ گذشتہ سیزن سے بڑا تو نہیں ہو گا کیونکہ اس وقت ورلڈ کپ اور ایشیز کھیلی جا رہی تھی اور وہ ہمیشہ سے مختلف (سیزن) رہتے ہیں۔
اس سال یہاں (انگلینڈ میں) پاکستان اور ویسٹ انڈیز کھیلنے کے لیے آ رہے ہیں، حالیہ دنوں میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ بہترین رہاہے۔
پاکستان ہمیشہ سے ہی اچھی ٹیم رہی ہے، اس لیے انہیں شائقین کی طرف سے بھرپور حوصلہ افزائی بھی ملتی ہے۔ اس دوران اچھی کرکٹ اور بھرپور مقابلے کی توقع ہے۔ ہم موسم گرما میں پاکستان کی آمد کے منتظر ہیں۔
سوال: پاکستان کرکٹ ٹیم میں وہ کون سے کھلاڑی ہیں جنہیں آپ اس دورے میں کھیلتا دیکھنا چاہیں گے؟
مائیکل ایتھرٹن: مجھے بابراعظم بہت اچھے کھلاڑی لگتے ہیں، وہ صلاحیتوں سے مالال مال ہیں ۔ ان دنوں وہ بھر پور فارم میں بھی ہیں،میری خواہش ہے کہ میں انہیں(اس سیریز میں) کھیلتا دیکھوں۔
برصغیر سے انگلینڈ آکر کھیلنا کھلاڑیوں کے لیے ایک بڑا امتحان ہوتا ہے۔گذشتہ دو تین سالوں سے انگلینڈ میں کنڈیشنز بہت مشکل ہو چکی ہیں۔ ڈیوک کی گیند، فلڈ لائٹ کرکٹ اور جس طرح پھر یہاں گیند گھومتی ہے،میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں یہ پاکستانی بلے بازوں کے لیے ایک امتحان ہوگا،مگر میرا خیال ہے کہ وہ اس سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سوال:بطور کرکٹر آپ پہلی مرتبہ ورلڈکپ 1996 کے دوران پاکستان آئے۔ پھر ناصر حسین کی قیادت میں 2000 میں پاکستان کا دورہ کیا اور اس کے بعد سےآپ متواتر پاکستان آتے رہے ہیں۔ وہ کیابات ہےجو آپ کو پاکستان کھینچ لاتی ہے؟
مائیکل ایتھرٹن: دراصل میں 2000 کے دورہ پاکستان کے بعد یہاں واپس نہیں آیا ،اس کے بعد میں 15-2014 میں پاکستان آیا۔ میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے سےقبل ان پر ایک ڈاکومنٹری کی سیریزکے سلسلے میں پاکستان آیا تھا۔
ہم اسلام آباد گئے اور خیبرپختونخواہ کو جانے والی سڑک پر کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا۔پھر شمال میں اور کشمیر بھی گئے، اس کے بعد ہم نے ان کے گھر میں ایک طویل نشست کی جہاں میں نے ان کا انٹرویو بھی کیا۔
ہم نے ان کے سیاسی نظریات پر بات کی اور وزیر اعظم بننے سے متعلق ان کے بہت سارے خواب اور امیدوں پر تبادلہ خیال ہوا،یہ طویل نشست تقریباََ ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اور انھوں نے مجھ سے آخری الفاظ یہ کہے تھے "ایک دن میں جیت جاؤں گا" اور وہ واقعی جیت گئے۔
سوال: آپ کرکٹ کی بہت معتبر آواز ہیں، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایک کرکٹر سے اب ایک کمنٹیٹر اور صحافی تک کا سفر کیسا رہا؟
مائیکل ایتھرٹن: میں 2002 (2001) میں ریٹائرمنٹ کے بعد سے اس کا حصہ ہوں، لہٰذا میں جتنا عرصہ کھیلا تقریباََ اتنی ہی دیر سے یہ کام کررہا ہوں۔
میں نے انگلینڈ میں اسکائے کے جن لوگوں کے ساتھ کام کیاا س پر میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں ، اور ہم یہ کام جاری بھی رکھیں گے، ہم بہترین وسائل کے ساتھ کھیل کی شاندار کوریج کرتے ہیں، اس کے علاوہ یہ ہمیں پاکستان جیسے مقامات پر جانے کی اجازت دیتے ہیں جہاں ہم عمران خان اور کرکٹ کی بحالی جیسی دستاویزی فلمیں تیار کرتے ہیں۔
یہ صرف کرکٹ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں کرکٹ سے جڑی دیگر کہانیاں سنانے کی اجازت بھی دیتے ہیں جو بہت اچھا ہے۔
مجھے یہ سب کرنا پسند ہے اور اب میں ادھر لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں۔ (فی الوقت) میں دی ٹائمز کے لیے لکھتا ہوں جو کہ انگلینڈ کا ایک بڑا اخبار ہے۔
میں جن لوگوں کے ساتھ کام کررہا ہوں،( اس لحاظ سے )میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔میں اس ملازمت کا لطف اٹھاتا ہوں۔ مجھے کرکٹ دیکھنا، کھلاڑیوں سے باتیں کرنا اور کرکٹ سے متعلق کہانیاں سنانا پسند ہے۔
آپ کو لطف اٹھانا ہوگا، آپ کو کھیل سے محبت کرنی ہوگی کیونکہ اس میں بہت کچھ ہےاور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو یہ بہت بے رنگ ہوجائے گالہٰذا مجھے کھیل سے پیار ہے اور میں کرتا رہوں گا۔
سوال: کیا آرام سے بیٹھ کر کھلاڑیوں اور ٹیموں پر تنقید کرنا آسان ہے؟
مائیکل ایتھر ٹن: یہ بالکل آسان نہیں ہے اور میرا نہیں خیال کہ میرا کام تنقید کرنا ہے۔
میرا خیال ہےکہ آپ کا کام ایمانداری سےسچ بولناہے۔ آپ کو اب بھی کھلاڑیوں سے ہمدردی کرنے کی ضرورت ہے،(کیونکہ) یاد رکھیں ، کھیل بہت سخت اور مشکل چیز ہے۔
کبھی کبھار، آپ کو تنقید کرنی پڑتی ہے اور اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر آپ منصفانہ انداز میں تنقید کرتے ہیں اور کھلاڑیوں کو معلوم ہے کہ آپ اسی مزاج کے ہیں اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے تو میرے خیال میں یہ ٹھیک ہے۔
سوال: جب آپ کی ٹیم توقعات کے مطابق کھیل پیش نہیں کررہی ہوتی تو آپ کس طرح اپنے آپ کو مثبت رکھتے ہیں؟
مائیکل ایتھر ٹن: درحقیقت میں خود کو کسی ٹیم کا حصہ نہیں بناتا۔ یقیناً میں انگلینڈ سے تعلق رکھتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ انگلینڈ جیتے۔
لیکن جب میرے ہاتھ میں مائیکروفون ہوتا ہے تو میں خودکو غیرجانبدار کمنٹیٹر تصور کرتا ہوں کیونکہ انگلینڈ میں رہنے کے باوجود، انگلینڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ کو معلوم ہوتاہےکہ بہت سے ایسےمداح بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں جو پاکستان ، بھارت یا کسی اور ٹیم کو پسند کرتے ہیں۔
لہٰذا میرے خیال میں تھوڑی بہت غیرجانبداری برقرار رکھنا ضروری ہے،ممکن ہے کہ یہ پرانے زمانے کا نظریہ ہو۔مگر میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ براڈکاسٹر کی حیثیت سے یہ ضروری ہے۔ لہٰذا میں کبھی بھی "ہم" کا لطف استعمال نہیں کرتا اور میرے خیال میں ایک مبصر کاغیرجانبدار ہونا بہت ضرور ی ہے۔
سوال: آپ روایتی اور نئے میڈیا کا تقابلی جائزہ کیسے لینا چاہییں گے اورآپ کی ترجیح کیا ہوگی؟
مائیکل ایتھر ٹن: یہ سب اب ایک ہو چکا ہے اور ہم اب بھی کھیل پر تبصرہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میں اب بھی ہمیشہ کی طرح کھیل پر ایک ہزار الفاظ لکھ سکتا ہوں۔بلاشبہ ہم سب جانتےہیں کہ اب سوشل میڈیا بہت ضروری ہے۔ اب ہم صرف 2 سے 3 منٹ کی کوریج کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ نسل سوشل میڈیا پر چھوٹے چھوٹے کلپس دیکھنا چاہتی ہے اور کھیل کی تقلید بھی اسی اندازمیں کرتی ہے۔ لہٰذا آپ کو ہر قسم کے میڈیا سےآگاہی کی کوشش کرنی چاہیے۔
سوال: ایسا لگتا ہےکہ یہ بہت اہم ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف تو آپ اخبار کے لیے 1000 الفاط لکھتے ہیں اور دوسری طرف آپ ٹوئیٹر پر صرف 240 الفاظ لکھ سکتےہیں۔جب ہم سوشل میڈیا پر آپ کی پوسٹس دیکھتے ہیں تو وہ بہت معیاری ہوتی ہیں تاہم اگر ہم دوسرے اکاؤنٹس کو دیکھیں تو وہاں ایسا نہیں ہوتا۔ایسا کیوں ہیں؟
مائیکل ایتھرٹن: میں نے ایک فیصلہ کیا ہے، اس سے قبل کہ آپ سوشل میڈیا پرجائیں ، آپ کو سوچنا چاہیے اور اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ آپ اس (پوسٹ) سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
میں کوشش کرتا ہوں کہ وہاں منصفانہ سوچ سے کام لیا جائے۔ دوسرے لوگ یقیناً اسے مختلف انداز میں استعمال کرتے ہیں، وہ اس سے تنازعہ کھڑا کرنے اور اپنے فالوؤرزسے رابطہ کرنےیا زیادہ سے زیادہ کلکس حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
صرف یہ نہیں کہ میں یہ کرتا ہوں بلکہ میں نے یہ فیصلہ کررکھا ہے اور میں کچھ عرصہ تک اس پر عمل کرتا رہوں گا۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ صحیح ہے اور نہ ہی میں دوسروں کو بتارہا ہوں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔
سوال: جس طرح ڈیجٹل انداز میں کھیل کی کوریج کی جارہی ہے، کیا آپ اس سے خوش ہیں؟
مائیکل ایتھر ٹن: ہاں! مجھے لگتا ہےکہ کھیل بہترین انداز میں کوؤر کیا جارہا ہے۔
میں نے ابھی حال ہی میں ورلڈکپ میں کام کیا اور میرے خیال میں یہ(تجربہ) شاندار رہا۔ اس دوران کھیل کو دونوں انداز میں کوؤر کیا گیا۔ روایتی انداز میں کوریج کے ساتھ ساتھ 3 سے 4 منٹ کے کلپس بھی براڈ کاسٹرزنے شائع کیے،جسے بہت سے فالوؤرز نےسراہا۔
میرے خیال میں گذشتہ سال موسم گرما میں ورلڈکپ کی کوریج شاندار رہی۔ میرا مطلب ہے کہ یہ ایک بہترین انداز میں مکمل ہوا اور جب کرکٹ بہترین رہےتو کوریج بھی شاندار رہتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس کی کوریج لاجواب رہی۔
سوال: جب کھلاڑی سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تو کیا آپ کو افسوس ہوتا ہے؟ آپ کو کیا لگتاہےکہ اس صورتحال میں کھلاڑی کو جواب دینا چاہیے یا نہیں؟
مائیکل ایتھرٹن: جب میں کھیلا کرتا تھا اس وقت کرکٹ آسان تھی، اب مشکل ہے۔
جب میں کھیلا تو کوئی سوشل میڈیا نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ کو مبصرین اور صحافیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا شائد اس وقت انگلینڈ میں ٹیبلاوئڈ میڈیا آج کے زمانے سے زیادہ طاقتور تھے۔
اس وقت سوشل میڈیا میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا، میرے خیال سے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے اب سوشل میڈیا سے دور رہنا آسان نہیں ہے۔
کھلاڑیوں کو مختلف وجوہات کے سبب سوشل میڈیا کے استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے،جس کی وجہ ذاتی اسپانسرشپ اور اپنی دستیابی ظاہر کرنا بھی شامل ہے۔لیکن یہاں تنقید کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا، خصوصاََ اگر آپ نوجوان ہیں تو۔
میں انگلینڈ کے چند نوجوان کرکٹرز کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں نے کچھ ایسے انڈر 19 کرکٹرز کو دیکھاہے جو جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے ٹورنامنٹ سے جلد باہر ہونے کے باعث سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنے۔انڈر19 کی سطح پر اس سے نمٹنا بہت مشکل ہے مگر یہ زندگی کی ایک تلخ حقیقت بھی ہے۔
اس کا شمار ان چیزوں میں ہوتا ہے جس سے نبردآزما ہونے کا طریقہ کار آپ کو وضح کرنا ہوگا۔ آپ اپنے آپ سے کہہ سکتے ہیں کہ میں اخبارات نہیں پڑھوں گا اور اس (خبروں)میں نہیں پڑوں گا مگر یہ کسی نہ کسی طرح آپ کے سامنے آ ہی جاتی ہیں۔
لوگ آپ کو بتائیں گے کہ کیا کہا گیا اور کیا لکھا گیا۔ لہٰذا یہ بہت مشکل ہے مگر آپ کو اس سے مقابلہ کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا نے کھلاڑیوں کی پرائیویسی چھین لی ہے؟
مائیکل ایتھرٹن: زندگی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔
میرے زمانے کے مقابلے میں لوگ اب بہت زیادہ کھل چکے ہیں۔ درحقیقت آسٹریلوی کرکٹ ٹیم پر ایک دستاویزی فلم ایمازون نے جاری کی ہے جس کے 8 حصے ہیں۔ اس ڈاکومنٹری میں کیمرہ ڈریسنگ روم کے اندر چلا گیا ہے۔ اس دوران وہ ہر ٹیم میٹنگ میں شریک رہےاور میرے خیال میں فلم بنانے والے کے پاس 2600 گھنٹے کی فوٹیج ہے۔
بلاشبہ لوگ اس سے بہت کھل کر سامنے آئے ہیں اس کے کئی فوائد بھی ہیں، جیسا کہ آپ لوگوں کو واقعی اس طرح دیکھ سکتے ہیں جیسے وہ ہیں اور اس سے صداقت بھی سامنے آتی ہے۔
لیکن یہاں پرائیوسی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ کھلاڑیوں کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ وہ کرکٹ گراؤنڈ میں کسی صورت بھی کیمرے سے نہیں بچ سکتے۔
اگر میں کھیل رہا ہوتا تو میں ڈریسنگ روم میں کیمروں سے ہر وقت محتاط رہتا۔
سوال: آپ موجودہ اور آئندہ آنے والے کرکٹ نمائندوں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
مائیکل ایتھرٹن: کھیل سے پیار کریں، کھیل سے لطف اندوز ہوں اور اچھی کہانیاں سنائیں۔
مجھے ابھی بھی یہی لگتاہے کہ یہ(صحافت) اچھی کہانیاں سنانے کے لیے ہے۔میں مانتا ہوں کہ اعداد و شمار، تکنیک اور اس طرح کی دیگر چیزیں ضروری ہیں مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ کھیل سے متعلق اچھی کہانیاں سنانا کسی بھی صحافی، براڈکاسٹر، ڈاکومنٹری میکر اورکمنٹیٹرکےاپنے اختیار میں ہوتا ہے۔