معروف کالم نگار رانا زاہد اقبال نے مقامی اخبار کیلئے لکھے گئے ایک کالم میں یہودیوں کی ہرزہ سرائیوں کے پیچھے پوشیدہ ان کے زہریلے مقاصد کا ذکر کیا ہے۔
رانا زاہد لکھتے ہیں کہ 71 سالہ اسرائیلی وزیرِ صحت "یاکوو لتزمن" نے ایک اسرائیلی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے کہا ہے کہ دنیا خاتمے کے قریب ہے اور 16 اپریل پاس اوور سے قبل مسیحا آئے گا جو اسرائیل کو اس بری صورتحال سے نکالے گا۔
انہوں نے لکھا کہ اس سے قبل اسرائیلی ربی "نیل بین ارتزی" جو پیشین گوئیوں کے حوالے سے بہت مشہور ہیں نے آج سے پانچ سال پہلے پشین گوئی کی تھی کہ دنیا پر خدا کا عذاب بن کر ایک بیماری آئے گی۔ چین اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا اور اس کے ایک لاکھ لوگ مریں گے۔ اب بیماری آنے کے بعد حالیہ دنوں ان کا جو بیان سامنے آیا ہے اس کے مطابق پاس اوور سے پہلے بیماری کا علاج صرف اور صرف اسرائیل سے آئے گا اور یہ کہ چین سمجھتا ہے وہ اس بیماری سے نکل جائے گا اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس تمام مصیبت سے کبھی نہیں نکل پائے گا معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ چین دنیا کے اندر رول کرے گا ہم یہاں پیشین گوئی کرتے ہیں کہ وہ دیوالیہ ہو جائے گا۔
نیل بین ارتزی کے مطابق دنیا میں جو بہتری آئے گی وہ اسرائیل سے آئے گی۔ یہ بیماری صرف اس لیے آئی ہے کہ مسیحا نے جو آنا ہے اس کیلئے ساری دنیا صاف ہو جائے۔ یہ خدا کا انصاف ہے چین پوری دنیا کے اندر چھا رہا تھا جب کہ دنیا کے اندر تو یہودیوں کا غلبہ ہو گا یہ تمام چیزیں تو ہماری ہیں ان پر تواسرائیل نے راج کرنا ہے۔
رانا زاہد نے بتایا کہ اسرائیلی مقاصد کے حصول کیلئے ایسی منصوبہ بندیاں کرتے رہتے ہیں اور یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ حالیہ منصوبہ بندی سے ان کا کیا مقصد ہے۔
رانا زاہد لکھتے ہیں کہ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے بلکہ یہودی اس طرح کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں اسی قسم کا شوشہ "شواح" بھی ہے یہودی اس کی یاد میں باقاعدہ دن بھی مناتے ہیں۔ یہ لفظ ایک یہودی سکالر " بن زیان ویٹواز" نے پہلی مرتبہ 1942ء میں دریافت کیا جو یہودیوں میں شہرت کا سبب بنا۔ ان کا کہنا تھا کہ شواح تاریخ کی عظیم ترین تباہی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہودیوں نے ہولو کاسٹ یا شواح کا شوشہ پوری شدت کے ساتھ چھوڑا۔ جونہی جنگِ عظیم ختم ہوئی تو نیشنل جیوش کانفرنس نے پوری دنیا سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے ایک ہم مذہب اور ہم نسل نے یہودیوں کا قتلِ عام کیا ہے اور بہت تھوڑے یہودی بچے ہیں۔ اب انہیں دوبارہ زندگی کی شروعات کیلئے علیحدہ ریاست دی جائے جس کا نام اسرائیل رکھا جائے۔ اسرائیل کا قیام یہودیوں کا صدیوں پرانا خواب تھا جس کے قیام کے کی کوشش انہوں نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد کی لیکن حالات نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران ان کی اتنی مدد کی اور انہوں نے پروپیگنڈے میں مہارت کا وہ فائدہ اٹھایا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
رانا زاہد بتاتے ہیں کہ یہودی کسی بھی بات کیلئے بڑی لمبی منصوبہ بندی کرتے ہیں، وہ کافی عرصہ پہلے ہی شوشہ چھوڑ دیتے ہیں جس پر انہوں نے مستقبل میں عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ یہودی اپنی بیٹی کے بالغ ہوتے ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں اور ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ زیادہ بچے پیدا کرنے کیلئے مختلف اداروں کی جانب سے انہیں ترغیبات بھی دی جاتی ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد اسرائیل دنیا میں یہودیت کا فروغ چاہتا ہے۔
لکھے گئے کالم کے مطابق اسرائیل کا مؤقف ہے کہ دنیا میں یہودا کی بادشاہت قائم کی جائے جس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے دو مختلف طریقے اختیار کیے۔ پہلا یہ کہ عیسائیت کو دینِ اسلام کا مخالف بنا کر یہودیت کو مضبوط کرنا تھا۔ دوسرا خوبصورت لڑکیوں اور عورتوں کو استعمال کر کے امریکہ سے اپنے مفادات کا حصول تھا۔
صہیونی تحریک کے ایما پر فلسطین میں پہلی جنگِ عظیم کے دوران یہودیوں نے زمینیں خریدنا شروع کر دی تھیں ۔ زیادہ تر فلسطینیوں نے ان زمینوں کی آباد کاری میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ ان کی دانست میں یہ کاشت کاری کے قابل نہیں تھیں۔ صہیونی رضا کاروں نے ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ دام دے کر ان زمینوں کو خریدا اورا نہیں بڑی محنت سے سنگترے، مالٹے، زیتون اور سبزیوں جیسی نقد آور فصلوں کی کاشت کے قابل بنایا۔ دوسری جنگِ عظیم کی افراتفری کے دوران صہیونی تحریک نے بالآخر برطانیہ کو ان زمینوں پر مشتمل ایک یہودی مملکت کے قیام کی حمایت پر مجبور کر دیا۔ جس کی منصوبہ بندی انہوں نے قبل از وقت ہی کر لی تھی۔
رانا زاہد نے مزید لکھا کہ غالباً سب سے زیادہ انبیاء بنی اسرائیل میں تشریف لائے اور اس قوم میں مبعوث ہونے والے ہر نبی نے ان کو دعوتِ اسلام دی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بار بار کفر و شرک میں مبتلا ہوتے رہے دورِ جدید میں بھی یہ قوم اللہ واحد پر ایمان رکھنے کی بجائے کفر و شرک میں مبتلا ہے، مسلمانوں کے خلاف مختلف سازشیں کرتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انبیاء اکرام کی نسل ہونے پر فخر کرنے والی یہ قوم خود ان کی تعلیمات سے کوسوں دور ہو چکی ہے اور عالمِ اسلام کو کمزور کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ اسی قوم کا نظر آئے گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تعلق کی نسبت کی وجہ سے یہودی خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں اور وہ خود کو اعلیٰ و ارفع خیال کرتے ہیں اور سرتاپہ گناہ آلود زندگی گزارنے کے باوجود یہ یقین رکھتے ہیں ان کو دوزخ کی آگ چھو نہیں پائے گی۔ ڈاکٹر گوہن نے اپنے مرتب کردہ صحیفہ تالمود کے انتخابہ مضامین کے مجموعہ "everymans library services" کے صفحہ نمبر 405 پر لکھا ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم دوزخ پر تشریف رکھتے ہوں گے اور کسی گنہگار یہودی کو اس میں گرنے نہ دیں گے۔ انہی خود ساختہ خوش فہمیوں نے اس قوم کو سرکش بنا یا ہوا ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ انہوں نے یہ خوش فہمیاں قوم میں خود ہی پھلائی ہیں تا کہ اپنی قوم سے اپنی منشا کے مطابق کام لے سکیں۔
اس قوم کی زیادتیوں کو شمار کیا جائے تو کوئی حساب نہیں ہے جب کہ ان تمام زیادتیوں کے باوجود آج بھی یہ قوم یقینی طور پر سمجھتی ہے کہ حضرت ابراہیم ان کو دوزخ میں جانے سے بچا لیں گے جب کہ نجات کا اصول اللہ تعالیٰ نے دنیا کی آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں بتا دیا ہے۔ مسلمان، عیسائی یا صائبین جو بھی اس اصول پر پورا اتریں گے وہ جنت میں جائیں گے۔ یہودیوں کی یہی خوش فہمی انہیں برائیوں سے باز رکھنے میں رکاوٹ ہے۔
یہودی اکابرین ایسی جھوٹی سچی باتیں کر کے اپنے لوگوں کی ذہن سازی کرتے رہتے ہیں تا کہ ان سے یہودی ازم اور اپنی منشاء کے مطابق کام لے سکیں۔ حالیہ دنوں امریکی تجویز پر جو اس خطے کیلئے امن منصوبہ معرضِ وجود میں آیا ہے اس نے بھی بہت سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ مسلمانوں کو اس کی مقدس اور مذہبی سر زمین سے نکالنا یا کم از کم ان کا اثر رسوخ ختم کرنا ہے۔ یہودیوں کو زرخیز زمین سمیت مقدس مقامات کی پیش کش اور مسلمانوں کو بنجر زمین دینے کا نام اگر امن منصوبہ ہو تو پھر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سودے بازی ہے۔