کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ایٹمی طاقتیں بھی پریشان نظر آرہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ لڑنے کے لیے ایٹم بم، میزائل، لڑاکا طیارے اور ٹینک نہیں، وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وبا کے دنوں میں کسی ملک کے پاس اس کی ضرورت کے مطابق یہ مشین نہیں ہے۔
سادہ الفاظ میں وینٹی لیٹر ایک ایسی مشین ہوتی ہے جو اس مریض کو آکسیجن فراہم کرتی ہے جو خود سانس نہیں لے سکتا۔ ایک ٹیوب کے ذریعے آکسیجن کو مریض کے پھیپھڑوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کورونا وائرس کا حملہ انسان کے پھیپھڑوں اور نظام تنفس پر ہوتا ہے۔ وینٹی لیٹر دستیاب ہونے کی صورت میں مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ وینٹی لیٹر نہ ملنے کی صورت میں مریض انتقال کرجاتا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق عام حالات میں کسی ملک کے ہیلتھ کئیر سسٹم کو بہت زیادہ وینٹی لیٹرز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پورے ملک میں مریضوں کے لیے جتنے بستر موجود ہوتے ہیں، ان کا محض چند فیصد انتہائی نگہداشت یعنی آئی سی یو کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ آئی سی یو میں بھی ہر مریض کے لیے وینٹی لیٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اسپتالوں میں زیادہ وینٹی لیٹرز نہ ہونے کی ایک وجہ ان کا مہنگا ہونا بھی ہے۔ ایک وینٹی لیٹر پچیس ہزار سے پچاس ہزار ڈالر تک کا ہوتا ہے۔ کوئی سرکاری یا نجی اسپتال اتنی تعداد میں وینٹی لیٹرز نہیں خریدتا کہ وہ خالی پڑے رہیں۔
لیکن کورونا وائرس کے حملے کے بعد پوری دنیا میں وینٹی لیٹرز کی اہمیت بڑھی ہے اور ہر ملک زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہ مشین حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وینٹی لیٹرز بنانے والی کمپنیوں کو اتنے آرڈر مل رہے ہیں جو وہ اپنی استعداد بڑھانے کے باوجود مہینوں تک پورے نہیں کرسکیں گی۔
دنیا میں سب سے زیادہ وینٹی لیٹرز امریکا کے پاس ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ 70 ہزار ہے۔ اس کے باوجود حکام اور ماہرین صحت پریشان ہیں کہ کورونا وائرس کے حملے پر قابو پانے کے لیے یہ تعداد کافی نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بدترین حالات میں ساڑھے 9 لاکھ وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
امریکا کی کار بنانے والی کم از کم تین کمپنیاں سارے کام چھوڑ کر وینٹی لیٹر بنانے میں لگ گئی ہیں تاکہ کورونا وائرس سے لوگوں کو بچانے میں کردار ادا کرسکیں۔ یورپ میں بھی گاڑیاں اور دوسری مشینیں بنانے والے ادارے تیزی سے وینٹی لیٹرز تیار کرنے کی دوڑ میں شامل ہورہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت دنیا بھر کے ملکوں کے صحت کے نظاموں کی درجہ بندی کرتا ہے۔ ان میں پہلے نمبر پر فرانس، دوسرے پر اٹلی اور ساتویں پر اسپین ہے۔ لیکن اس وبا میں تینوں ناکام دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کافی تعداد میں وینٹی لیٹرز نہیں ہیں۔
فرانس کے پاس 5065 اور اٹلی کے پاس 5200 وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسپین کے پاس ان سے بھی کم تعداد ہے۔ اسی لیے ان ملکوں میں بڑی تعداد میں مریض ہلاک ہوئے۔
اٹلی میں ساڑھے پانچ ہزار ہلاکتوں کے مقابلے میں جرمنی میں صرف 115 افراد جان سے گئے۔ اتنے بڑے فرق کی وجہ یہ ہے کہ جرمنی میں 25 ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں اور وہ اپنے مریضوں کو بچاسکتے ہیں۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے وبا پھوٹتے ہی مزید 10 ہزار وینٹی لیٹرز کا آرڈر دے دیا تھا۔
ایک اور ملک جس کے پاس کافی تعداد میں وینٹی لیٹرز ہیں، روس ہے۔ پورے روس میں 40 ہزار وینٹی لیٹرز ہیں جن میں سے 5 ہزار سے زیادہ صرف ماسکو میں ہیں۔ ابھی تک روس میں کورونا وائرس سے صرف ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔
برطانیہ کے سرکاری اسپتالوں میں 8175 وینٹی لیٹرز موجود ہیں لیکن حکومت نے وبا کی وجہ سے نجی اسپتالوں کو تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح ان میں مزید وینٹی لیٹرز کا اضافہ ہوگیا ہے۔ آئرلینڈ میں 1229 اور اسرائیل میں 3100 وینٹی لیٹرز ہیں لیکن ان ملکوں نے سیکڑوں مشینوں کے نئے آرڈر دے دیے ہیں۔
بھارت میں وینٹی لیٹرز کی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن اس کی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ تعداد کم ہے۔ بہت سے شہروں میں ایک بھی وینٹی لیٹر نہیں جس کی وجہ سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ وبا پھیلی تو بھارت کو بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔
کورونا وائرس سے سب سے پہلے متاثر ہونے والے چین میں بھارت سے بھی کم یعنی 15 ہزار اور ووہان میں 600 وینٹی لیٹرز تھے جس کی وجہ سے وہاں بڑی تعداد میں مریض ہلاک ہوئے۔ اندازہ ہے کہ چین نے جس طرح تیزی سے عارضی اسپتال بنائے، اسی طرح بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز بھی تیار کیے جس سے ہلاکتوں کا سلسلہ گھٹ گیا۔ اب چین دوسرے ملکوں کو وینٹی لیٹر فراہم کررہا ہے جن میں اٹلی اور پاکستان شامل ہیں۔ اس نے اٹلی کو 30 اور پاکستان کو 800 وینٹی لیٹرز فراہم کردیے ہیں۔
چین سے امداد ملنے سے پہلے پاکستان میں صرف 1700 وینٹی لیٹرز تھے جن میں سے کچھ خراب بھی ہیں اور ان پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر تمام مشینیں بالکل ٹھیک ہوں تب بھی نئے اور پرانے وینٹی لیٹرز کی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں جو 22 کروڑ کی آبادی کے حساب سے قطعی ناکافی ہے۔