جنگ میں فتح حاصل کرنےکیلئے حکومتیں عورتوں کے استعمال کو جائز سمجھتی ہیں۔ ان کیلئے دشمن ملک کے اہم کارندوں سے دفاعی راز اگلوانے کیلئے عورت سے بہتر ہتھیار ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ہر دور میں ہوا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔
انگریزی میں اسے "Honey Trap" کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کسی مرد کواپنی خوبصورتی کے جال میں پھنسا کر اس سے اپنی مرضی کے کام کروانا۔
ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ کوئی اتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہو جو حسن کے دام میں نہ پھنسے یا اپنے فرائض کے تئیں اتنا ذمہ دار ہو کہ اس سے کسی طرح کی لغزش نہ ہو یا اتنا نیک ہو کہ ہر طرح کی ترغیبات سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔
ان بازی گر عورتوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے دوستی کرتی ہیں، باہمی اعتماد کی فضا قائم کرتی ہیں، پھر تعلقات بڑھا ک رمناسب موقع پر ایسا وار کرتی ہیں کہ شکار آواز تک نہیں نکال پاتا۔ غرض جو دوستی خوش گپیوں سے شروع ہوئی تھی، وہ مختلف مراحل طے کرکے خوابگاہ تک پہنچ جاتی ہے۔ نتیجتاً کبھی بلیک میل کا سبب بنتی ہے اور کبھی دشمن ملک کے دفاعی راز کو یہاں سے وہاں منتقل کرنے کے کام آتی ہے۔
حالانکہ حساس مناصب پر کام کرنے والے افسران کو پہلے ہی آگاہ کردیا جاتا ہے کہ نئی جگہ پر نئے لوگوں سے ملنے جلنے میں احتیاط برتئے گا مگر وہ اکثر دھوکا کھاجاتے ہیں اور یہ سوچ کر کہ نئے مقام پر اگر تھوڑی بہت عیاشی کرلی جائے تو کس کو کیا پتہ چلے گا، ایک کے بعد ایک حماقت کرنے لگتے ہیں۔
جب ہوٹلوں میں شامیں گزارنے، پارٹیوں میں شرکت کرنے اور دعوتیں اڑانے کا انجام سامنے آتا ہے تو لگتا ہے کوئی سائے کی طرح ان کے پیچھے لگا ہوا تھا اور انہوں نے اپنی کوتاہی اور غیر ذمہ داری سے اپنے کریئر کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔
سنہء 80 کی دہائی میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے ایک افسر جو"ایل ٹی ٹی ای" کے معاملات دیکھتے تھے، ایک امریکی ایئر ہوسٹس کی زلفِ گرہ گیر کے ایسے اسیر ہوئے کہ ان کے فرشتوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ محترمہ "سی آئی اے" کی ایجنٹ ہیں اور انہیں استعمال کررہی ہیں۔ جب تک انہیں خبر ہوتی، وہ جیل کی کوٹھری تک پہنچ چکے تھے۔
سنہء 2004 میں ایک امریکی خاتون دو بھارتی افسروں ( پال اور داس گیتا) سے ملیں، ان سے پینگیں بڑھائیں ، پھر ان افسروں کے لیپ ٹاپ ایسے غائب ہوئے کہ آج تک نہیں ملے۔ جبکہ قانوناً حساس اطلاعات آفس سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بہرحال دونوں حضرات جیل کی ہوا کھارہے ہیں۔
ایسے واقعات کی کمی نہیں، 2009 میں سُکھ جندر سنگھ نامی افسر کو ایئر کرافٹ کے سودے کے لیے ماسکو بھیجا گیا مگرآپ سودے کو بھلا کر ایک روسی خاتون کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے پائے گئے۔
راجستھان کے ایک فوجی افسر بنگلہ دیشی خاتون کے ساتھ "فیس بک" پر دوستی کرتے نظر آئے۔ تفتیش پر پتہ چلا کہ محترمہ ان سے ملنے کئی بار راجستھان کا بارڈر کراس کرکے ہندوستان آچکی ہیں۔ ایک ایسی ہی حسینہ ڈھاکہ کے تربیتی کالج میں ایک ہندوستانی افسر کو پھنسا چکی تھیں۔ خوش قسمتی سے نوجوان افسر کو اس کے ضمیر کی آواز نے بچالیا۔ اس نے فوراً اپنے باس کو خبر کی اور افسر کو ہندوستان واپس بلالیا گیا۔
اسی طرح اسرائیل کا ایک نیوکلیئر سائنس دان لندن کے ایک اخبار کے دفتر پہنچا اور اپنے ملک کے دفاعی پروگرام کو فروخت کرنے کی کوشش کی۔ اخبار والے اس کی بات سمجھ نہیں پائے، لیکن اس وقت تک "موساد" کو اپنے سائنس دان کی مذموم حرکت کی خبر لگ چکی تھی۔ لندن میں اپنے افسر کی گرفتاری موساد کے لیے پریشا نی کا باعث تھی، اس لیے ایک خاتون ایجنٹ کو لندن روانہ کیا گیا، جس نے اس سائنس دان پر ڈورے ڈالے، اسے روم میں چھٹیاں گزارنے پر آمادہ کیا اور موصوف جوں ہی روم کی زمین پر اُترے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
جنگوں کے دوران ایسے واقعات اکثر دیکھنے میں آئے، مثلاً دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مشرقی جرمنی کی سیکرٹ سروس کو مغربی جرمنی کی اہم سرکاری معلومات کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے محسوس کیا کہ جنگ کے بعد مغربی جرمنی کی تنہا عورتیں کثیر تعداد میں کام کرنے لگی ہیں۔ مشرقی جرمنی کے افسروں نے ایک "رومیونیٹ ورک" قائم کیا جس کے تحت خوبردار وجیہ نوجوان مغربی جرمنی کے اہم سرکاری اداروں کے باہر گھومتے پھرتے، ان اداروں میں کام کرنے والی عورتوں سے دوستی گانٹھتے اور پھر ان سے سرکاری راز حاصل کرکے اپنے ملک پہنچا دیتے۔
مغربی جرمنی کی سیکرٹ روس کو جب اس نیٹ ورک کی خبر لگی توانہوں نے اپنے اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو خبردار کیا کہ عشق و عاشقی کا یہ کھیل ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ اس لیے ایسے مردوں سے دور رہیں۔
بیٹی پیک نامی خاتون کو اتحادیوں کے ایک کمانڈر نے دوسری جنگ عظیم کی ایک غیر معمولی اور گمنام ہیرو کا لقب دیا تھا، کیونکہ اس خاتون نے بیک وقت فرانسیسی اور اطالوی افواج سے سیکرٹ کوڈ چرا کر امریکیوں تک پہنچائے تھے۔
ڈچ جاسوس "ماتا ہاری" کے نام سے تو ہر شخص واقف ہے جس نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کیلئے جاسوسی کی تھی۔ اسی کی پرکشش شخصیت کا یہ عالم تھا کہ فرانس کا ہر اہم جنرل اس پر جان چھڑکتا تھا۔ جب اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا تواس نے اپنے ایک (ملٹری اتاشی) دوست کا ذکر کیا جس کی مہربانیوں سے وہ فرانس میں مقیم تھی۔ چونکہ اس کا جھوٹ پکڑا جاچکا تھا اس لیے اسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا گیا مگر ماتا ہاری اتنی بہادر تھی کہ آخری لمحوں میں بھی اس نے اپنی آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی۔
کہانیاں تو بہت ہیں مگر قصہ مختصر، جنسی بے راہ روی کسی کو نہیں بخشتی۔ اگرآپ اقتدار کے نشے میں چور ہوس ناکی کا شکارہیں تو جلدیا بدیر آپ کا زوال یقینی ہے۔ ہوس پرستی نے تو رشی منیوں کی تپسیائیں بھی بھنگ کی ہیں اور اچھے خاصے پختہ کردار والوں کو بھی شیطان کا مرید بنایا ہے، کیونکہ حسن کا مایاجال اتنا دلفریب اور توبہ شکن ہوتا ہے کہ آدمی سب کچھ بھول کر اس کا اسیر ہوجاتا ہے۔
سنہء 2009 میں برطانوی سیکرٹ سروس نے حساس اداروں میں ایک سرکلر تقسیم کیا تھا جس میں مذکور تھا کہ چینی حسیناؤں کی عیاری سے خبردار رہیں، آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ آپ کو دیوانہ بنادیں گی۔ آج بھی ان حسیناؤں کا جادو اپنی ساری حشر سامانیوں کے ساتھ جاری ہے۔
بات جو بھی ہو، یہ طے ہے کہ صدیوں سے شہد کی یہ مکھیاں بڑے پیار سے شہد کے میٹھے گھونٹ اپنے شکار کے حلق میں انڈیل رہی ہیں اوران کے شکار شہد چکھتے ہی ایسے مدہوش ہوجاتے ہیں کہ انہیں دنیا ومافیہا کی خبر نہیں رہتی۔ یاد رہتا ہے تو صرف ان مکھیوں کا تعاقب اوران کی اطاعت۔ اس دیوانگی میں کس کا کتنا نقصان ہوتا ہے اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔