جنیوا: دنیا بھرمیں کورونا وائرس کی کوئی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے اقوام عالم انتہائی تشویش کا شکار ہیں تاہم ہلاکتوں کے باوجود کامیابی سے صحتیاب ہونے والوں کی تعداد میں تتیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس بیماری کا علاج ہی نہیں ہے تو پھر 80 ہزار سے زائد لوگ اس موذی مرض کو شکست دے کر صحتیاب کیسے ہوگئے؟
اس کا جواب عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اس گرافک سے لگایا جاسکتا ہے جو اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کہیں بھی کورونا وائرس کا مناسب یا درست علاج موجود نہیں، تاہم ایسا نہیں ہے کہ اس وائرس کو دوسری دوائیوں سے نہیں روکا جاسکتا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر مریض میں ابتدائی نوعیت کی علامات پائی جاتی ہیں تو ڈاکٹرز ان علامات کے خاتمے کیلئے روایتی ادویات کا استعمال کرتے ہیں اور مریض کو مکمل نگرانی میں رکھتے ہیں۔ جن کی حالت زیادہ خراب ہو ان کی نگہداشت کے لیے طبیعت کے مطابق اقدامات کیے جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق وائرس سے متاثرہ شخص کو دوران علاج ٹیسٹ کی بنیاد پر روایتی طریقہ کار کے تحت علاج فراہم کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اسے بیماری سے نجات دلائی جائے۔ اس ضمن میں عالمی ادارہ دنیا بھر کے صحت سے متعلق اداروں سے مل کر کام کر رہا ہے۔
عالمی ادارے کے مطابق اس حوالے سے علاج کے مختلف طریقے سامنے آئے ہیں جن کا تجربہ اب مریضوں پر کیاجائے گا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت کورونا وائرس کے علاج کے لیے کوئی خصوصی دوائیاں تجویز نہیں کی جا سکتیں، تاہم ماہرین مریض کی حالت کے مطابق مختلف دوائیاں استعمال کرسکتے ہیں۔
یاد رہے دنیا میں کہیں بھی کورونا وائرس سے تحفظ کی کوئی ویکسین علاج کے لیے سامنے نہیں آسکی تھی اور نہ ہی کم سے کم اگلے 12 سے 18 ماہ تک ایسی کوئی ویکسین سامنے آنے کی امید ہے۔
امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک کے سائنس دان کورونا وائرس سے بچنے کی ویکسین تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
امریکا نے دیگر ممالک سے بازی لے جاتے ہوئے 16 مارچ 2020 سے کورونا وائرس کی ایک ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کردی تھی تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آئندہ چند ہفتوں میں دنیا بھرمیں دستیاب ہوگی۔
امریکی ماہرین نے جہاں ویکسین کی انسانوں میں آزمائش شروع کردی ہے، وہیں انہوں نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ اس مرحلے میں 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے اور اس کے بعد بھی اس بات کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ ویکسین کامیاب ہوگی یا نہیں، اس کی کامیابی کا نتیجہ آزمائشی رضاکاروں کے ٹیسٹ سے ہوگا۔