کراچی: حکومت سندھ نے کورونا وائرس کی بازگشت میں خاموشی سے لاڑکانہ کے 73 پولیس افسران کا کراچی میں تبادلہ کردیا، اتنی بڑی تعداد میں پولیس افسران کو لاڑکانہ سے تبادلہ کرکے ایک ساتھ کراچی رینج پولیس یا کسی اور رینج کے حوالے کرنے کی مثال نہیں ملتی۔
حکومت سندھ کے محکمہ پولیس کے حکم نامے کے مطابق لاڑکانہ رینج کے 73 پولیس انسپکٹرز کا فوری کراچی رینج میں تبادلہ کردیا گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تمام پولیس افسران کا کراچی میں تقرری کا مقصد لاڑکانہ میں پولیس انسپکٹرز کی نئی اسامیاں پیدا کرنا ہے۔
اس اقدام کے نتیجے میں کراچی کا ڈومیسائل رکھنے والوں کیلئے پولیس میں بھرتی ہونے کے مواقعے غیر معمولی طور پر محدود ہوجائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق آئی جی کلیم امام ایسے ہی اقدامات پر مزاحمت کررہے تھے جس کی وجہ سے حکومت سندھ ان سے نالاں تھی۔ مذکورہ تمام افسران کا بنیادی تعلق لاڑکانہ سے ہی ہے ان تمام نے اندرون سندھ کے ڈومیسائل کے تحت ہی پولیس میں ملازمتیں حاصل کی تھیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر کو نہ اردو زبان پر عبور ہے اور نہ ہی یہ بنیادی انگریزی زبان اور کراچی کے علاقوں سے واقف ہیں۔ تمام افسران کی بھرتیاں اور ترقیاں مبینہ طور پر سفارش کی بنیاد پر ہوئیں ہیں۔
خیال رہے کہ صوبائی پولیس کا مکمل کنٹرول سندھ حکومت کی براہ راست نگرانی میں جانے کے بعد یہ اس طرح کا پہلا قدم ہے۔ جس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ کراچی میں سیاسی اور سماجی جماعتوں اور شہری حلقوں کی جانب سے شدید منفی ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔
جن پولیس انسپکٹرز کا کراچی میں تبادلہ کیا گیا ہے ان میں غلام مصطفٰی ابڑو، نثار احمد کھوکھر، آفتاب احمد مگسی، رشید لودھی، منظور احمد مہر، اسلام جتوئی، شبیر عباسی، عبدالحلیم سومرو، غلام اصغر، نذیر حسین مگسی، زاہد حسین قادری، انور علی حسان، محمد ارس نورانی، غلام شبیر جانوری، سید وریل شاہ، جان محمد منگریو، ثنااللہ جلبانی، شفقت دھامرا، محمد مجتبی ابرو، غلام شبیر کھیڑو، نیر حسین بروہی، غلام مصطفٰی، جاوید بروہی، سیف اللہ سدھایو، آصف علی، عبدالوحید ابڑو، ممتاز علی سیال، حسین علی بروہی، جانی جاکھرانی، الیاس سانگی، عبدالسلام چانڈیو، گلزار کلہوڑو، امداد چانڈیو، طالب حسبانی، ارسلا خان پٹھان، غلام قادر جتوئی، اظہر احمد منگی، طارق جلیان، اسلم پرویز ابڑو، نور محمد چنا، عبدالستار بھیو، امید علی شاہ، محمد سلیم پٹھان، گل شیر، ملازم عباسی، محمد علی مہر، منور بروہی، غلام سرور سرکی، عبدالقدوس ماری، زبیر احمد جلیان، غلام مصطفٰی ندوانی، عبدالکلیم شاہ، طالب جلبانی، شبیر سہتو، مختاریا میمن، برکت علی شاہ، سجاد سومرو، نیاز مغیری، محمد الیاس اوڈھو، سید احمد دیہر، امداد ابڑو، فرمان علی بھٹو، وزیر احمد بھٹو، اعجاز علی سیہر، سلیم رضا ابڑو، بشیر مگسی، اظہار احمد، نثار احمد نون، منظور بابر بھٹو اور عبدالغفار سنجرانی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پولیس کی ایک پلاٹون میں شامل اہلکاروں کی تعداد 15 تا 45 ہوا کرتی ہے۔ اس حساب سے دو پلاٹون کے مساوی پولیس انسپکٹر کی فورس کو کراچی پہنچادیا گیا ہے، جو ایڈیشنل آئی جی کراچی کی صوابدید پر ہوگی۔
خدشہ ہے کہ ان میں سے اکثریت کو ایس ایچ او لگادیا جائے گا اس طرح کراچی کے تھانہ انچارج میں بیشتر غیر مقامیوں کی ہوجائے گی۔ جس ڈویژن کے لیے جو بھرتیاں کی جاتی ہیں ان کی تعیناتی بھی اسی ڈویژن میں کی جاتی ہے لیکن ایک ساتھ 73 پولیس انسپکٹرز کی کراچی میں تقرری نہ صرف خلاف ضابطہ ہے بلکہ خلاف قانون بھی ہے۔