نئی دہلی: بھارت کی افغان امن عمل میں دراڑ ڈالنے کی سازش سامنے آگئی، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خصوصی ٹاسک پرسیکرٹری خارجہ کا کابل بھیج دیا ہے۔
ایک جانب افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ ہونے جارہا ہے تو دوسری طرف بھارتی سیکرٹری خارجہ کابل میں سرگرم ہیں۔
نریندرمودی افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف اکسانے کی کوشش کررہے ہیں، امریکی سیکرٹری دفاع اور نیٹو سیکرٹری جنرل بھی اس وقت افغانستان میں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت اچانک طالبان سے روابط استوار کرنے کا خواہشمند کیوں ہوگیا؟
نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ بھی افغان صدر سے ملاقات کریں گے۔
واضح رہے کہ دوحہ میں یہ پہلاموقع ہوگا جب طالبان کے ساتھ کسی بھی طرح کی میٹنگ میں بھارتی نمائندہ بھی موجود ہوگا۔ افغانستان میں سن 1996 سے 2001 تک طالبان کی حکومت تھی لیکن بھارت نے طالبان کی حکومت کو نہ تو حکومتی اور نہ ہی سفارتی سطح پر تسلیم کیا۔
لیکن بھارت کے اس فیصلے سے لگتا ہے کہ افغانستان میں بدلتی سیاسی صورت حال کے پیش نظر اس نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ہے اور وہ طالبان کے ساتھ اپنے روابط استوار کرنے کا خواہاں ہے۔
دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کی تقریب میں بھارت کی موجودگی طالبان اور بھارت کے درمیان ممکنہ سفارتی روابط کے قیام میں پہلا قدم بتایا جا رہا ہے۔
جنوبی ایشیائی امور کے ماہر قمر آغا نے جرمن خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکمت عملی کے اعتبار سے افغانستان بھارت کے لیے بہت اہم ہے۔ بھارت نے بہت کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے اور وہ اس کا تحفظ چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا، ”اب بھارت کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا ہے۔ افغان حکومت بھی طالبان کے ساتھ معاہدے پر متفق ہوچکی ہے تو بھارت الگ تھلگ کیسے رہ سکتا ہے۔ بھارت کی کوشش یہ ہے کہ افغانستان میں وہ اپنے اثاثے کسی طرح محفوظ رکھ سکے۔ اس نے وہاں بہت سرمایہ کاری کی ہے وہ ان پر حملے یا ان کی بربادی نہیں چاہتا۔”
ایک سوال کے جواب میں قمر آغا نے بتایا کہ علاقائی امور کے تعلق سے اب بھی بھارت اور امریکا کے درمیان کافی اختلافات ہیں اور افغانستان کے بارے میں تو کچھ زیادہ ہی لیکن بھارت کے پاس آپشنز نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ”طالبان ہمیشہ بھارت کے مخالف اور بھارت میں عسکریت پسندی کو ہوا دینی والی قوتوں کے حامی رہے ہیں، تو اگر افغانستان میں دوبارہ عدم استحکام ہوتا ہے تو پھر اس سے کشمیر میں بڑے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں اور بھارت ان سے بچنا چاہتا ہے۔”