انسان کو فطری طور پر رنگ اور رنگ برنگی اشیاءپسند آتی ہیں۔ اکثرلوگ قدرتی چیزوں کو دیکھتے ہیں تو اس میں کھو سے جاتے ہیں۔قدرت نے ہر ایک شئے کا رنگ اتنا مناسب رکھا ہے کہ کوئی بھی رنگ آنکھوں کو برا نہیں لگتا۔
جیسے آسمان کا نیل اور سفید رنگ انسان کی آنکھوں کو سکون اور سوچ کو تازگی دیتا ہے۔ درختوں کے سبزپتوں اور پھولوں میں عجب سی کشش محسوس ہوتی ہے۔ انسان کی رنگوں سے یہی وابستگی اسے کائنات کے دیومالائی حسن کے قریب کردیتی ہے۔ انسان خواہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو وہ نہ صرف رنگوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے بلکہ وہ خود بھی ان رنگوں کو اپنے ہاتھ سے استعمال کرتے ہوئے ایک خوشی محسوس کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب ڈرائنگ کرنا یا تصویروں میں رنگ بھرنا بچوں کاہی نہیں بلکہ بڑوں کا بھی پسندیدہ مشغلہ بنتاجارہا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے جب ہوم ورک کررہے ہوتے ہیں تو انکی مائیں بھی بڑے شوق سے بچوں کی ڈرائنگ کی کتابوں پرر نگ بھرتی نظر آتی ہیں۔ اس سرگرمی کے دوران وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ لطف اندوز بھی ہوتی ہیں۔آج کل کے جدید دورر میںبچے کلر کی کتابوں کے علاوہ کمپیوٹر بھی پینٹ کرتے نظر آتے ہیں۔
ماہرین نے اس بہت دلچسپ بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ افراد جو ڈرائنگ یا رنگ بھرنے کے شوقین ہوتے ہیںان میں ذہنی دباﺅ کم ہوتا ہے۔ یعنی کلرنگ کرنے سے آپ کا ذہنی دباﺅ ختم ہوجاتا ہے۔ اسی حوالے سے سائیکوتھراپسٹ لنڈاٹرنر کاکہنا ہے جب آپ پوری توجہ سے ساتھ رنگ بھررہے ہوتے ہیں تو درحقیقت آپ سکون کی وادی میں اتر رہے ہوتے ہیں۔ ٹرنر کے مطابق کہ جب بچے تصویروں میں رنگ بھرتے ہوئے اٹھنے پرجوش ہو سکتے ہیں توبڑے یقینا اس سرگرمی سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ کلرنگ کی کتاب میں خواہ بناوٹ ہی کیوں نہ ہووہ کچھ نہ کچھ تخلیق کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔
ماہرین کاکہنا ہے رنگ بھرنا بہت آسان اور دلچسپ ہے اس کیلئے کسی خاص ٹیلنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی یہ ایک تھراپی ہے۔ جس سے انسان کو پریشانیوں سے نجات دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ رنگوں میں انسانی جسم اور ذہن پراثرانداز ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے رنگ ہمارے احساسات اور جذبات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ذہنی کارکردگی کو بڑھاتے ہیں اور سیکھنے کے عمل کو دلچسپ بناتے ہیں۔
زمانہ قدیم میں چین اور مصرکی تہذیبیں بھی رنگوں کے ذریعے ذہنی بہاروں کاعلاج کرتی رہیں ہیں اور جدید سائنس بھی اس علاج کو ماتنی ہے رنگوں سے علاج کو کروموتھراپی کہاجاتا ہے۔
انسان کی رنگوں کے ساتھ وابستگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کوعقل کے علاوہ جس بات پر جانداروں پر فوقیت حاصل ہے وہ یہ بھی ہے کہ انسان رنگوں میں امتیاز کرسکتا ہے۔ رنگوں کااحساس کرسکتا ہے۔ رنگوں کے اسی احساس کو تصویروں میں رنگ بھرکر محسوس کیاجاسکتا ہے اور سٹریس کو دور بھگایا جاسکتا ہے۔
بقول ٹرنر جب لوگ تصویروں میں رنگ بھررہے ہوتے ہیں تو وہ بہت پرسکون ہوتے ہیں یہ چیز انہیں زندہ دل بناتی ہے اور پر جوش کردیتی ہے۔ اس طرح ذہنی دباو¿ سے آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اور انسان ہشاش بشاش نظر آنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تورنگوں کے علم کو باقاعدہ سائنس کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔