دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں انسانوں کی زندگیاں نگل جانے والے پُراسرار کرونا وائرس سے متعلق مختلف آراء گردش کر رہی ہیں، جنہیں کوئی حقیقت گردانتا ہے تو کوئی سازشی نظریے کا نام دیتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حال ہی میں سوشل میڈیا پر "دی آئیز آف ڈارکنس" نامی ناول زیر بحث ہے، جس میں امریکی مصنف نے چالیس برس قبل چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس جیسی وبا کی پیشگوئی کی تھی۔ جس کا نام "ووہان فور ہنڈرڈ" وائرس تھا۔
ناول کے مطابق انسانوں کا بنایا ہوا پُراسرار وائرس صرف انسانوں کو متاثر کرتا جبکہ دیگر جانور محفوظ رہتے ہیں۔
ناول میں بتایا گیا کہ یہ وائرس انسانی جسم سے باہر کچھ ہی لمحوں بعد بے اثر ہو جاتا تاکہ کوئی جگہ یا علاقہ ہمیشہ کے لیے آلودہ نہ ہوجائے اور جیسے ہی مرنے والے شخص کے جسم کا درجہ حرارت 30 سے کم ہوتا تو وائرس جسم سے غائب ہوجاتا۔
1981 میں لکھے گئے ناول میں ڈین کونٹز نے بائیولوجیکل ہتھیاروں میں جس مہلک ترین ووہان فور ہنڈرڈ وائرس کا تذکرہ کیا وہ ایک پوری آبادی کو موت کے منہ میں اتارنے کے بعد خود بھی ختم ہو جاتا ہے تاکہ دشمن بغیر متاثر ہوئے پورے شہر پر قبضہ کرسکے۔
سوشل میڈیا پر امریکی ناول کے چرچے کے ساتھ ہی بھارت کی ایک اور خبر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کی بعد بھارت سرکار نے ریاست ناگالینڈ میں ہونے والی مشکوک سائنسی تحقیق کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
اخبار دی ہندو کے مطابق مہلک وائرس سے متعلق تحقیق کرنے والے چین، امریکا اور بھارت کے ریسرچرز پر مشتمل بارہ رکنی ٹیم نے چمگادڑوں اور ان کا شکار کرنے والے افراد کے خون کے نمونے حاصل کیے۔
ریسرچرز کی ٹیم میں دو افراد کا تعلق چین کے شہر ووہان میں واقع ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی سے تھا اور تحقیق کی فنڈنگ امریکی محکمہ دفاع کے ادارے ڈیفنس تھریٹ ریڈکشن ایجنسی نے کی تھی۔