Aaj Logo

اپ ڈیٹ 12 فروری 2020 02:15pm

'لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو حکومت کو جگہ نہیں ملے گی'

اسلام آباد: سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت ملکی معیشیت کی جو تصویر دکھا رہی ہے عوام اس سے بے خبر ہیں، ماضی میں چینی 43 روپے کلو تھی، آج 90 تک پہنچ گئی۔ آٹے اور چینی کی قمیت میں اضافے کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں۔

قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کے دوران حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ن لیگی رہنما شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ ایک وزیر نے بیان دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب آٹا مہنگا ہوا، ایک خاتون وزیر نے اسلام آباد سے شاپنگ بیگ ختم کر دیئے، فواد چودھری ہمیں چاند پر لے کر جائیں گے، ہم اس کا انتظار کر رہے ہیں، کسی ایک وزیر کی کارکردگی دکھا دیں۔ ان وزرا کی تقاریر سن لیں، کیا اس طرح ملک چلے گا۔

انہوں نے کہا کہ قرض لے کر گزارہ کیا جا رہا ہے، موجودہ حکومت نے 5 سال پورے کر لئے تو قرضہ دگنا ہو چکا ہو گا۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں کہاں تک پہنچ گئی ہیں۔ آٹے اور چینی کے بحران پر خصوصی کمیٹی بنائی جائے، آئین کہتا ہے بجلی اور گیس کے معاملات صوبوں کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے مہنگائی کے معاملے پر حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ عوام  سڑکوں پر نکل آئے تو جگہ نہیں ملے گی۔

 سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی ایک بھی بات حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں مشیر خزانہ کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مشیر خزانہ نے بہت خوش کن  اعداد و شمار سامنے رکھے، اب میں اپنے حلقے کے عوام سے کہوں گا کہ موڈیز کی رپورٹ پڑھ لیا کریں اور  پرائمری سرپلس کھا لیا کریں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نے سب باتیں کیں لیکن آٹے اور چینی کی قیمتوں کا ذکر کرنا بھول گئے، 2018 میں آٹا 40 روپے تھا اور آج 70 روپے فی کلو مل رہا ہے، چینی 53 روپے تھی جو آج 70 روپے مل رہی ہے، کون اس کا جواب دے گا۔

ان کا کہنا تھا حکومت نے اگر 5 ہزار ارب روپے کا قرض واپس کیا ہے تو  12 ہزار ارب روپے کا قرض لیا بھی ہے، اس کا کیا جواب ہے؟

انہوں نے کہا کہ مشیر خزانہ کی حب الوطنی پر شک نہیں لیکن جو 342 لوگ اس ہاؤس میں بیٹھتے ہیں وہ بھی اتنے ہی محب وطن ہیں، یہ افراد ہاؤس کے فلور کر کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ ہم 10 سال تک ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے، ہمیں نہ بتائیں کہ محب وطن کیا ہوتا ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن 10 سے 12 تقاریر کرتی ہے تو ایک وزیر ذمہ داری کے ساتھ تمام تقریروں کا جواب دیتا ہے لیکن وزراء کی کل والی تقاریر نکال کر دیکھ لیں، کیا ملک اس طرح چلے گا۔

انہوں نے کہا کہ پوری کابینہ میں صرف ایک خاتون وزیر نے کام کیا ہے، وزیر نے اسلام آباد سے پلاسٹک شاپنگ بیگ ختم کیے، باقی وزراء کی کارکردگی دکھا دیں۔

وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شاہد خاقان عباسی بولے کہ وزیراعظم نے کہا کہ آٹے کا بحران مافیاز نے پیدا کیا، یہ فرما کر وہ اپنی معمولی سی غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے کوالا لمپور چلے گئے اور ان کے دورے کا خرچہ دوستوں نے ادا کیا، واپس آکر انہوں نے کہا کہ بحران کی وجہ سرمایہ دار طبقہ ہے لہذا ملک بھر میں چھوٹے دکانداروں کے لیے 50 ہزار دکانیں بنائی جائیں گی جنھیں 5، 5 لاکھ روپے دیئے جائیں گے جو تقریباً 35 ارب روپے بنتے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ وزیراعظم کے اعلان کے حساب سے 200 دکانیں فی قومی اسمبلی حلقہ بنتی ہیں، اس سے یہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا، اس سارے عرصے میں پاکستان کے عوام آٹے اور چینی کی مد سے 2 ارب روپے یومیہ زیادہ ادا کر رہے ہیں، اس کا کیا جواب ہے مشیر خزانہ کے پاس؟ کیا یہ مافیا وہی لوگ نہیں ہیں جو وزیراعظم کے اخراجات اٹھاتے ہیں، اللہ کرے کہ ایسا نا ہو۔

ان کا کہنا تھا حکومت کی جانب سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ آٹے کے بحران کا ذمہ دار کون ہے اور اس پر کیا کارروائی ہوئی اور یہ بحران آخر حل کیسے ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مزے کی بات ہے کہ اس پوری صورت حال میں کسی نے پنجاب حکومت کا تذکرہ نہیں کیا، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان گوہر نایاب ہیں، کیا ان کے بارے میں کوئی بات کر سکتا ہے، اسپیکر صاحب میری گزارش ہے کہ تھوڑی ہمت کریں اور پہلی جنوری سے اب تک 60 ارب روپے کا جو ڈاکہ پڑ چکا ہے، اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دیدیں، موڈیز اور آئی ایم ایف کی تعریف کر کے کام نہیں چلے گا، یہ سب باتیں وزیر خزانہ پہلے بھی کر چکے ہیں۔

رہنما ن لیگ نے کہا کہ اگر وزیر خزانہ اپنی باتوں پر یقین رکھتے ہیں تو ان سے اظہار ہمدردی ہی کر سکتا ہوں لیکن وزیر خزانہ کی ایک بات بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے وزراء پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اتنے ایکسپرٹ ہیں اس حکومت میں کہ ہر وزیر دوسرے کے کام کا ایکسپرٹ ہے، وزیر انسانی حقوق وزارت خارجہ چلانا چاہتی ہیں، وزیر خارجہ اکنامک ڈپلومسی پر بات کرتے ہیں، ایک قطار ہے پڑھے لکھے ایکسپرٹ کی لیکن اتنے ٹیلنٹڈ لوگوں سے ملک نہیں چل رہا۔

Read Comments