سینئرصحافی اور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم "مصری کیسے لوگ ہیں" میں لکھتے ہیں کہ مصریوں کی چند روایات بہت ہی دلچسپ ہیں۔ مثلاً یہ مُردوں کو قبرستانوں میں دفن نہیں کرتے تھے، یہ اپنے گھروں میں مُردوں کیلئے ایک کمرہ مختص کر دیتے تھے، کمرہ زیر زمین ہوتا تھا۔
جاوید چوہدری اپنے کالم میں مزید بتاتے ہیں کہ یہ نماز جنازہ کے بعد مردے کو اس کمرے میں رکھ آتے تھے اور کمرے کو سِل سے بند کر دیتے تھے، قدیم قاہرہ میں ایسے سیکڑوں کمرے آج بھی موجود ہیں۔
جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ مصر کے بعض گھرانے آج بھی مُردوں کو اسی طرح دفن کرتے ہیں۔ ان کی تعزیت کا طریقہ بھی مختلف ہے، یہ میت دفن کرنے کے بعد رات دروازے کے باہر ٹینٹ لگا دیتے ہیں، ٹینٹ کو قمقموں سے روشن کرتے ہیں، اپنے تمام دوست احباب کو اطلاع کرتے ہیں، گھر کے مرد اور خواتین سوٹ پہن کر ٹائی لگا کر دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، لوگ بھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں، لواحقین سے ملتے ہیں اور ٹینٹ کے اندر کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔
مصر میں تعزیت کے لیے دریاں یا قالین نہیں بچھائے جاتے، لوگ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور انہیں قہوہ پیش کیا جاتا ہے۔ قاری صاحب آتے ہیں اور لاؤڈ اسپیکر پر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دیتے ہیں، تلاوت ختم ہوتے ہی تعزیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ یہ لوگ تعزیت کے دوران کھانا دیتے ہیں اور نہ ہی اس "فنکشن" کے بعد تعزیت کی اجازت ہوتی ہے۔ مصر میں شہروں اور دیہات میں تعزیتی محفلوں کے لیے ہال بھی بن چکے ہیں، یہ ہال "مناسبات" کہلاتے ہیں اور یہ میرج ہال کی طرح کام کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ہال کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے وہ گلی میں ٹینٹ لگا کر تعزیت کا مرحلہ مکمل کر لیتے ہیں۔