بیجنگ: جین ایڈیٹنگ کے زریعے قدرتی معاملات میں چھیڑ چھاڑ کرنے والے سائنس دان کو عدالت نے تین سال قید کی سزا سناتے ہوئے تمام عمر کام کرنے پر پابندی عائد کردی۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق چینی سائنس دان نے ایک سال قبل بچوں کی جین کی ایڈیٹنگ کا تجربہ کر کے انہیں ایچ آئی وی سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس کے بعد انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
چین کی عدالت نے سائنس دان کو تین سال کے لیے جیل بھیج دیا جبکہ اُن کے تاحیات کام کرنے پر پابندی عائد کردی۔
چین کی سدرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر جیان کیوئی نے نومبر 2018 میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے جڑواں بچیوں کی پیدائش سے قبل ہی جینیاتی ایڈیٹنگ کی اور انہیں ایچ آئی وی بیماری سے محفوظ بنادیا۔
جیان کیوئی کے اس اقدام کو دنیا بھر کے ماہرین نے انتہائی خوفناک قرار دیا اور تحقیق کے حوالے سے اپنے شدید خدشات کا اظہار بھی کیا تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ تجربے کے دوران اُس سپر ٹیکنیک کو استعمال کیا گیا جو انسانی جینز کی ایڈیٹنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور سائنس دانوں کو توقع تھی کہ اس کی مدد سے مستقبل میں انسانی زندگی کو بہتر بنانے اور موروثی بیماریوں کو روکنا ممکن ہوسکے گا۔
جیان کی اپنی یونیورسٹی نے اُن کی تحقیق کو مسترد کردیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تحقیق کرنے والے ماہر کو سخت سزا دیں۔
اس سے قبل جیان کیوئی پر تیس ملین یوآن (4 لاکھ 30 ہزار ڈالر) جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے جو انہوں نے ادا کیا۔ چین کے جنوبی شہر کی عدالت کے جج نے آج مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جیان اور اُن کے ساتھ شامل دو ماہرین کو قید کی سزا سنائی۔
عدالتی فیصلے میں جیان کو تین سال جبکہ ژیان رینلی اور قین جن ژہو کو دو دو سال عمر قید کی سزا سنائی گئی، علاوہ ازیں ساتھ دینے والے دو ڈاکٹرز کی ملازمت پر بھی 2 سال کی پابندی عائد کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جیان اور اُن کی ٹیم کے تجربے کے بعد دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا جس کے بعد تمام افراد روپوش ہوگئے تھے، جین ایڈیٹنگ سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں ایڈز جیسے موذی مرض کی بیماری تیزی کے ساتھ پھیل سکتی ہے۔