سال دو ہزار انیس کے دوران پاکستانی معیشت میں جہاں اتار چڑھاؤ آئے، وہیں امریکی ڈالر سولہ روپے سڑٹھ پیسے مہنگا ہوگیا، اسٹاک مارکیٹ میں بھی سارا سال تیزی مندی کا سلسلہ جاری رہا۔
انٹربینک مارکیٹ، سال دوہزار انیس کے آغاز پر ہی پاکستان کو مالی مشکلات درپیش رہیں، بیرونی ادائیگیاں،اربوں ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضہ لینے کے لئے ایکس چینج ریٹ کو آزاد چھوڑنا پڑا۔
بعدازاں ڈالر نے ایسی اڑان بھری کہ جنوری میں ایک سو اڑتیس روپے تیئیس پیسے کا ڈالر مئی تک انٹربینک میں ایک سو سینتالیس روپے بانوے پیسے اور جون میں ایک سو چونسٹھ روپے پانچ پیسے کی بلندی پر پہنچ گیا۔
کرنسی ایکسپرٹس کہتے ہیں معاشی صورتحال کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہوا،تاہم حکومت کی جانب سے مناسب اور بروقت انتظام کی وجہ سےاب قیمت میں استحکام ہے۔
کرنسی مارکیٹ کی طرح پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں بھی سال بھر اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری رہا۔
سیاسی بے یقینی، سرحدی کشیدگی، معاشی صورتحال، کرنسی ڈی ویلیوایشن اور بلند شرح سود نے سرمایہ کاروں کو تذبذب میں مبتلا رکھا۔ تاہم سال کے اواخر میں معاشی صورتحال کے ساتھ سیاسی بے یقینی بھی ختم ہوگئی، انٹرنیشنل اداروں نے معیشت کو بہتر قرار دیا۔
شرح مبادلہ اور شرح سود میں استحکام سے سرمایہ کار متحرک ہوگئےجس سے مارکیٹ کے ہنڈریڈ انڈیکس نے اوپر کی جانب پیش قدمی کی۔
دسمبر میں انڈیکس پندرہ ماہ بعد بیالیس ہزار کی نفسیاتی حد عبور کرگیا۔
ڈائریکٹر اسٹاک سرمایہ کار کہتے ہیں موجودہ صورتحال کے پیش نظر امید ہے کہ آئندہ سال کرنسی اور کیپٹل مارکیٹس میں مزید بہتری آئے گی۔