اسلام آباد: جیلوں میں قیدیوں کی حالت زارسے متعلق کیس میں چیف جسٹس اسلام ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے اہم ریمارکس دیئے ہیں اور کہا ہے کہ جوبااثرقیدی ہے اس کوجیل میں بہترسہولیات دی جاتی ہیں۔ غریب آدمیوں کو بلکل اندھیرے میں پھینک دیا جاتا ہے۔جب درخواست گزارعدالت پہنچ جائے تو سمجھیں ریاست اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کررہی ۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے دو قیدیوں قیدی خادم حسین اورجاوید اقبال کی درخواستوں پرسماعت کی۔
وزارت انسانی حقوق کے نمائندہ نے قیدی جاوید اقبال کی طبی بنیادوں کی درخواست پرجائزہ لیا جارہا ہے ، جیل انتظامیہ نے قیدیوں کا تفصیلی طبی معائنہ ہونے کاموقف اپنایا۔
چیف جسٹس نے صوبائی جیلوں میں قیدیوں کے ٹیسٹ سے متعلق پوچھا کہ آزاد شخص پرریاست کی ذمہ داری کم ہے لیکن قیدی ہونے پرذمہ داری بڑھ جاتی ہے اس اہم مسئلے پرآج تک کسی کواحساس نہیں ہوا ، کہیں رکاوٹ یا کمی ہے توحکومت کوآگاہ کیا جائے۔
نمائندہ انسانی حقوق نے کہاکہ عدالت حکم دے توقانونی معاونت کے منتخب نمائندوں میں تبدیلی کرناچاہتے ہیں، چیف جسٹس نے رپورٹ جمع کروانے کاحکم دیتے ہوئے کہاکہ اسکا مطلب ہے انکوائری میں کچھ خامیاں ہیں عدالت ٹیسٹ کیس کے طورپرجائزہ لیں گی ،کچھ حقائق ریاست نے ہی دور کرناہے قیدیوں کو طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے واضح پالیسی بنائی جائے ۔
عدالت نے قیدی خادم حسین اورجاوید اقبال کی درخواستوں پر سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی۔