Aaj Logo

شائع 10 دسمبر 2019 05:42am

واشنگٹن پوسٹ نے افغان جنگ کی خفیہ دستاویزات جاری کردیں، ہوشرُبا انکشافات

واشنگٹن: امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے افغان جنگ سے متعلق امریکی رہنماؤں کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔ جن کے مطابق افغان جنگ پر 950 ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود جیت مقدر نہ بن سکی۔

دو دہائیوں پر محیط قانونی جنگ کے بعد امریکی اخبار کو افغان جنگ کی خفیہ دستاویزات موصول ہوئیں، 18 سال سے امریکی رہنما افغان جنگ سے متعلق جھوٹ بولتے رہے، امریکی حکام جانتے ہوئے کہ افغانستان جنگ جیتی نہیں جا سکتی پھر بھی دل بہلانے والے اعلانات کرتے رہے۔

مشیر امریکی کمانڈر کے مطابق کابل اور پینٹا گون میں امریکی حکام حقائق اور اعداد و شمار کو تبدیل کرتے تاکہ عوام کو جیت کا تاثر جائے، تمام سروے ناقابل اعتماد تھے، سروے کا مقصد امریکا کی جیت کو دکھانا تھا۔

امریکی جنرل نے اعتراف کیا کہ ہمارے پاس افغانستان سے متعلق پوری جانکاری تھی ہی نہیں، افغان جنگ سے متعلق دھندلا خاکہ بھی ہمارے تصور میں نہیں تھا، امریکا غریب ملکوں کو امیر، یا ملکوں میں جمہوریت لانے کے لئے حملہ نہیں کرتا۔

دو ہزار صفحات پر مشتمل خفیہ دستاویزات میں امریکی فوجی افسروں اور اہلکاروں کے انٹرویوز شامل ہیں جن میں تقریباً سبھی کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے بارے میں وہ ہمیشہ سچ کو چھپا کر یہ اعلانات کرتے رہے کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق اس جنگ پر ایک ٹریلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے، خواتین سمیت 2300 فوجی ہلاک اور 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

واشنگٹن پوسٹ نے افغان جنگ کے بارے میں یہ معلومات جنگی اخراجات اور نااہلی کا محاسبہ کرنے والے سرکاری ادارے ’’اسپیشل انسپکٹرجنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘‘ سے حاصل کی ہیں۔ یہ معلومات ویت نام جنگ کے بارے میں پینٹاگان کی دستاویزات سے ملتی جلتی ہیں جو ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں کہ جب امریکا طالبان کے ساتھ جنگ کے پرامن تصفیے کے لیے دوحا میں مذاکرات کررہا ہے۔

ریٹائرڈ نیوی افسر جیفری ایگرز سابق صدور بش اور اوباما کے ادوار میں وائٹ ہاؤس میں بھی کام کرچکے ہیں ان کا اپنے انٹرویو میں کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن اپنی آبی قبرمیں جنگ کے نتائج پر یہ سوچ کر ہنس رہا ہوگا کہ ہم نے اس جنگ پر کتنا پیسہ خرچ کرڈالا۔

اسی طرح سال 2013ء میں امریکی فوج کے کرنل اور انسداد دہشت گردی کے ماہر افسرباب کراؤلی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو جنگ کی بہترین تصویردکھانے کے لیے  ہر چیز کا ڈیٹا تبدیل کردیتے تھے، ہمارے سروے بھی مکمل غلط ہوتے تھے، ہم جس چیز کو ہرطرح سے ٹھیک دکھاتے تھے وہ آخر ہمارے لیے اپنی ہی چاٹی ہوئی آئس کون بن جاتی تھی۔

بش اوراوباما کے ادوارمیں سینئر ملٹری ایڈوائزر رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس لیوٹ کا اپنے انٹرویوز میں کہنا ہے کہ وہ افغانستان کے بارے میں بنیادی سوجھ بوجھ سے ہی عاری تھے، ہمیں یہ تک پتا نہیں ہوتا تھا کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں۔

ایک افسر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج اپنے اصل دشمن سے ہی مکمل آگاہ نہیں تھی، ہمارے کمانڈروں کو یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ ہمارے دشمن طالبان ہیں، القاعدہ ہے، داعش ہے یا غیر ملکی جنگجو ہیں یا سی آئی اے کے پے رول پر کام کرنے والے جنگجو سردار ہیں، ہمارے لیے اچھے طالبان کون اور برے کون ہیں اور وہ کہاں رہتے ہیں یا پاکستان ہمارا دوست ہے یا دشمن ہے۔

ایک امریکی افسر نے کہا کہ ہم نے افغانستان کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ ہی نہیں کیا اور وہاں اپنے جیسا بااختیار مرکزی حکومت کا نظام لانے کی کوشش کی جبکہ وہاں ڈھیلے ڈھالے مرکزی نظام کے ساتھ علاقائی طاقتور حکومتیں رہی ہیں، امریکا نے افغانستان میں سماجی نظام تبدیل کرنے کے لیے تقریباً 138 ارب ڈالر خرچ کرڈالے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اتنی رقم سے جنگ عظیم کے بعد آدھے یورپ کی معیشت کو بحال کردیا گیا تھا۔

Read Comments