اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا سوال یہ ہےکہ آپ نے کہا تھا جنرل کبھی ریٹائرنہیں ہوتے۔ سوال یہ بھی ہے اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پنشن بھی نہیں ہوتی؟
عدالت نے حکم جاری کیا کہ 15 منٹ میں جنرل کیانی کی توسیع کے دستاویزات پیش کریں۔ دستاویزات لےآئیں پھرآپ کوتسلی سےسن لیں گے۔ جائزہ لیں گے، جنرل کیانی کی توسیع کن بنیادوں پرہوئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا اس معاملے پرعدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، دستاویزات کچھ دیرمیں پہنچ جائیں گے۔ آرٹیکل243کےتحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کہیں نہیں لکھا جنرل کیانی کوتوسیع کس نے دی تھی، جس قانون کےتحت توسیع دی گئی اس کابھی حوالہ دیں، اتنےاہم عہدے کیلئے توابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل راحیل کو پنشن مل رہی ہے، رولز میں تو جنرل کی پنشن کا ذکر ہی نہیں ہے۔
٭ کیس کا مختصر فیصلہ کب؟
واضح رہے کہ آج شام آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا مختصر فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو کیا تقرری غیرقانونی ہو جائے گی؟ 6 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرلیں۔آپ نے جو تبدیلیاں کرنی ہیں کرلیں۔ ہمارے پاس رات12بجے تک کا وقت ہے۔
جس کے بعد سماعت میں ایک بجے تک وقفہ کردیا گیا۔
فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل آف پاکستان سپریم کورٹ سے روانہ ہوگئے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت 15 منٹ وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کررہاہے۔چیف جسٹس نے جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کےدستاویزات طلب کرلئے۔
اٹارنی جنرل انورمنصور،بیرسٹرفروغ نسیم عدالت میں پیش ہوگئے۔ پاکستان بار کونسل نے فروغ نسیم کا لائسنس بحال کردیا۔
چیف جسٹس نے جنرل کیانی اورجنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاسوال یہ ہےکہ آپ نے کہا تھاجنرل کبھی ریٹائرنہیں ہوتے۔سوال یہ بھی ہےاگرریٹائرنہیں ہوتے تو پنشن بھی نہیں ہوتی؟15منٹ میں جنرل کیانی کی توسیع کے دستاویزات پیش کریں۔دستاویزات لےآئیں پھرآپ کوتسلی سےسن لیں گے۔جائزہ لیں گے،جنرل کیانی کی توسیع کن بنیادوں پرہوئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا دستاویزات کچھ دیرمیں پہنچ جائیں گے۔آرٹیکل243کےتحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلےسےکیسےمختلف ہے؟مطمئن کرناہوگا،اب تعیناتی کیسے درست ہے؟
وقفے سے قبل
سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت توسیع کیس کی سماعت کا دوسرے روز آغاز ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل پر مشمل تین رکنی بینچ سماعت کررہاہے۔
سماعت کے سلسلے میں اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان اور آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فیکیشن طلب کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات بھی پیش کریں، وہ جب ریٹائر ہوئے تو اس نوٹیفیکیشن کے کیا الفاظ تھے وہ بھی پیش کریں۔
عدالت نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کتنی پینشن ملی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی۔
٭ سمری سے عدالت کا نام نکالنے کی ہدایت
چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی، تعنیاتی اورتوسیع سے متعلق آرمی ریگولیشنزکی کتاب کو چھپا کرکیوں رکھا گیا، اس کتاب پرلکھا ہے کوئی غیرمتعلقہ شخص پڑھ نہیں سکتا، کیوں آپ نے اس کتاب کو سینے سے لگا کر رکھا ہوا تھا، بھارت اور دیگرممالک میں آرمی چیف کی تعیناتی اورمدت واضح ہے، اب عدالت میں معاملہ پہلی بار آگیا ہے تو واضح ہونا چاہیے۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے اس پر مؤقف اپنایا کہ اگرمدت مقرر نا کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا۔
٭ گزشتہ روز کی کارروائی
چیف جسٹس نے درخواست گزار ریاض حنیف راہی سے استفسار کیا کہ آپ کہاں رہ گئے تھے، کل آپ تشریف نہیں لائے، ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی۔
ریاض حنیف راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہو گئے ہیں اور اپنی درخواست واپس لینا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔
اٹارنی جنرل انورمنصور بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم نے کل چند سوالات اٹھائے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کچھ وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں، کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی، کابینہ سے متعلق نقطہ اہم ہےاس لیے اس پربات کروں گا، رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے، حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے، رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے، اگرکابینہ سرکولیشن میں وقت مقررنہیں تھا تواس نقطے کوچھوڑدیں، اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدرمملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں جو وزیراعظم کی سفارش پرافواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ازسرنواورتوسیع کے حوالے سے قانون دکھائیں جس پرعمل کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے، کیا تعیناتی کی مدت کابھی ذکر ہے اور کیا ریٹائرڈ جنرل کوآرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ شاید ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں، جبکہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے اور آرمی ریگولیشن آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس میں آئین خاموش ہے، 5،7 جنرل دس دس سال تک توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، آج یہ سوال سامنے آیا ہے،اس معاملے کو دیکھیں گےتاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے، تاثر دیا گیا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو صفحات آپ نے دیئے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دستاویزات کے ساتھ آرمی چیف کا اپائنٹمنٹ لیٹر ہے، جنرل قمر باجوہ کی بطورآرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے، کیا پہلی بارجنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لئے تھی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی طے کرنے کا اختیار کس کو ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پرقانون خاموش ہے اور آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو 2 بار معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ تعیناتی میں توسیع بھی شامل ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریٹائرمنٹ 2 اقسام کی ہوتی ہے، ایک مدت ملازمت پوری ہونے پراوردوسری وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ، ہمیں بتائیں آرمی چیف ریٹائرکیسے ہوگا، نارمل ریٹائرمنٹ توعمر پوری ہونے پرہوجاتی ہے، آرمی ریگولیشن کی شق 255 کوریٹائرمنٹ کے معاملے کےساتھ پڑھیں تو صورتحال واضح ہوسکتی ہے۔
فروغ نسیم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جنگی صورتحال میں کوئی ریٹائر ہورہا ہو تو اسے کہتے ہیں آپ ٹہرجائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے اگر جنگ لگی ہو تو چیف آف آرمی اسٹاف کسی کی ریٹائرمنٹ کوروک سکتا ہے، یہاں تو آپ چیف کو ہی سروس میں برقراررکھ رہے ہیں، قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں، لیکن حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کوروکناچاہتی ہے، آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے اور ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی نہیں ہوتی۔
ایک موقع پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا جس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے۔ اس پرعدالت میں قہقے گونج اٹھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا 3 سالہ مدت کے بعد آرمی چیف فوج میں رہتا ہے یا گھر چلاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی افسران سروس کی مدت اور مقررہ عمر کو پہنچنے پرریٹائر ہوتے ہیں، قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تو رات تک دلائل دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آئینی عہدے پرتوسیع آئین کے تحت نہیں،عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی، بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے جس آرمی ریگولیشنز کی سیکشن 255 میں کل ترمیم کی گئی وہ آرمی چیف کے متعلق ہے ہی نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کو فوج کی کمانڈ اور سروس کے حوالے سے رولز بنانے کا اختیار ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں سپہ سالارکی مدت تعیناتی کے متعلق کچھ نہیں، اگر آرمی ایکٹ میں مدت تعیناتی نہیں تورولز میں کیسے ہو سکتی ہے؟، آرمی ایکٹ میں صرف لکھا ہے کہ آرمی چیف فوج کی کمانڈ کرینگے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رولز آرمی ایکٹ کی دفعہ 176اے کے تحت بنائے گئے، آج 184/3 کے حوالے سے رولزفل کورٹ اجلاس میں زیر بحث آئیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہاعدالت کو میں تعیناتی کی دیگر مثالیں بھی پیش کروں گا۔ آرمی ایکٹ کا اطلاق تمام افسران اور جونیئرکمیشن پرہوتا ہے۔
جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا سپہ سالارکوچیف آف آرمی سٹاف کہا جاتا ہے، لفظ سٹاف کا کیا مطلب ہے؟
چیف جسٹس نے کہا ا سٹاف کا مطلب شاید آرمی میں کام کرنے والے تمام لوگ ہیں۔
آٹارنی جنرل نے جواب دیا آرمی میں کئی سویلین لوگ بھی کام کرتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اسٹاف کا سربراہ حاضرسروس شخص ہی ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا حکومت کا انحصارسیکشن 255 پرہے جوآرمی افسرکے لئے ہے۔
آٹارنی جنرل نے کہا آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی افسروہ ہے جوکمیشنڈ افسرہو۔ آرمی چیف کوکسی بھی افسرکی برطرفی کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا رولز ہمیشہ ایکٹ اور قانون کے تحت ہی بنتے ہیں۔ ایکٹ میں ایسا کچھ نہیں کسی بہت قابل افسرکو ریٹائرہونے سے روکا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کیا آرمی ایکٹ میں کسی بھی افسرکی مدت سروس کا ذکرہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا مدت ملازمت کا زکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ میں مدت اوردوبارہ تعیناتی کا ذکرنہیں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی ذکرایکٹ میں نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا فوج کوئی جمہوری ادارہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں فوج کمانڈ پر ہی چلتی ہے۔میں آرمی ایکٹ کے چیپٹر ون ٹو اور تھری کو پڑھوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ اگر جان دینی پڑی تو دے گا۔یہ بہت بڑی بات ہے۔ ‘میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا’ یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے۔ بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا فیلڈ مارشل سمیت کسی بھی آرمی افسر کو حکومت ریٹائرڈ کر سکتی ہے۔ حکومت رضاکارانہ طور پر یا پھر جبری طور پر ریٹائر کر سکتی ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا باربارمدت کا ذکرآرہا ہے توآپ مدت کے بارے میں بتادیں۔
چیف جسٹس نے کہا چیف آف آرمی سٹاف فوجی معاملات پرحکومت کا مشیربھی ہوتا ہے۔ فوج کے نظم ونسق کی ذمہ داری بھی آرمی چیف پرعائد ہوتی ہے۔ ہم فوج کے سارے ریگولیشنزکودیکھ رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا حکومت ریٹائرمنٹ کومحدود اورمعطل کرسکتی ہے۔ ریٹائرمنٹ محدود کرنے کا مطلب اگلے حکم نامے تک کام جاری رکھا جائے۔ ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی طور پر ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ریٹائرمنٹ محدود یامعطل مخصوص حالات میں کی جا سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے ماہرین یا تجربہ کار افسران کوجنگ کے دوران دوبارہ بلایا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا سیکشن 255 کے تحت 3ریٹائرڈ افسران کوبحال کرکے سزا دی گئی۔ اگرریٹائرمنٹ معطل نہیں کی توتینوں افسران کوسزا کس قانون کے تحت ہوئی۔ ریٹائرڈ افسر کا ٹرائل فوج نہیں کر سکتی۔ آگاہ کیا جائے فوج سیکشن 255 پرکس طرح عمل کرتی ہے۔ سیکشن 255 کا اطلاق ریٹائرڈ یا ریٹائرمنٹ کے قریب افسران پرہوتا ہے۔ آرمی چیف دوران جنگ افسران کو ریٹائرمنٹ سے روک بھی سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا جرم کرنے والوں کو سیکشن 255 کے تحت نہیں بلایا جاتا۔ جرم کرنے والے افسران پر آرمی ایکٹ کی سیکشن 292 کا اطلاق ہوتا ہے۔ ایکٹ میں واضع ہے کہ ریٹائرڈ افسر کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ سے صرف آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن مانگا تھا۔
جس پر اٹارنی جنرل نے جنرل قمرباجوہ کی بطورآرمی چیف تقرری کا نوٹیفکیشن پیش کردیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نوٹیفکیشن میں کہیں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت کا ذکر نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا آرمی چیف کو توسیع کی ضرورت ہی نہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق وہ ہمیشہ آرمی چیف رہیں گے۔ کیا جنرل باجوہ کوآگاہ کیا کہ انہیں کتنے سال کےلئے تعینات کیا گیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ 3 سال بعد آرمی چیف ریٹائرہوجائیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا عمومی طور پر 3 سال بعد آرمی چیف سروس برقرار نہیں رکھتے۔
جسٹس منصور نےکہا کیا وزیراعظم ریٹائرڈ آرمی چیف کو دوبارہ تعینات کر سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا آئین کے مطابق ریٹائرڈ افسران کی آرمی چیف تعیناتی پر پابندی نہیں۔
جسٹس منصور نے کہا آئین میں یہ بھی نہیں لکھا کہ آرمی چیف کا تعلق فوج سے ہونا چاہیئے۔ ایسے تو آپ کو بھی آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا ماضی میں ایڈہاک ججز کی مدت میں بھی توسیع دی گئی۔ ایڈہاک ججز کی مدت میں توسیع کا بھی آئین میں ذکر نہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم کو روسٹم پر بلاکر سوال کیا کہ کیا آرمی چیف کل ریٹائر ہو رہے ہیں؟
فروغ نسم نے جواب دیا آرمی چیف کل نہیں پرسوں رات 12 بجے ریٹائر ہونگے۔
چیف جسٹس نے کہا آپ کہتے ہیں وہ ریٹائر ہو رہے اتارنی جنرل کہتے ہیں جنرل ریٹائر نہیں ہوتا۔
فروغ نسیم کے روسٹم پر آنے پر وائس چیئرمین پاکستان بار امجد شاہ نے اعتراض اٹھایا۔
امجد شاہ نے کہا فروغ نسیم کا لائسنس پاکستان بار معطل کر چکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ابھی فروغ نسیم کو دلائل کےلئے نہیں بلایا۔ وقفے کے بعد اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔
درخواستگزار ریاض حنیف راہی نے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے جواب دیاہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد آپکو آرمی چیف لگا دیا جائے۔ آپ بیٹھنا چاہیں تو بھی آپکی مرضی جانا چاہیں تو بھی۔
چیف جسٹس عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تک جو ریگولیشنزبتائیں اس سے مطمئن نہیں۔ ہم آپکوسننا چاہتے ہیں آپکی قابلیت کا ادراک ہے۔ آرمی چیف 28 اور29 نومبرکی درمیانی شب ریٹائرہوجائیں گے۔ ایکسٹینشن شایداس وقت آتے ہیں جب قانون میں خلاء ہو۔ توقع ہے آپ کے دلائل سے خلاء ختم ہوجائے گا۔
جسٹس منصور نے کہا اگرآرمی چیف خودکو دوبارہ تعینات کیا ہے توصاف بتائیں۔ آرمی چیف کومدت مکمل ہونے پر دوبارہ تعینات کیا گیا ہے۔
آرمی چیف کی تعیناتی کا نیا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کردیا گیا۔
جسٹس منصور نے کہا نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 243 کاذکرنہیں ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق آرمی چیف کوتوسیع دی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا نوٹیفکیشن کے مطابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کومحدود کیا گیا۔
جسٹس منصور نے کہا پرانے نوٹیفکیشن میں تعیناتی کا ذکرتھا اس میں توسیع کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا جوسمری صدرکوبھجوائی گئی تھی اس میں آرٹیکل 243 کا ذکرہے۔
چیف جسٹس نے کہا سمری کے مطابق وزیراعظم نے توسیع کی سفارش ہی نہیں کی۔ سفارش نئی تقرری کی تھی لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے۔ کیا کسی نے سمری اورنوٹیفیکیشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ کل ہی سمری گئی اور منظور بھی ہو گئی۔ آرٹیکل 243 کے تحت تعیناتی ہوتی ہے توسیع نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا صدرنے دستخط دوبارہ تعیناتی کے ہی کیے ہیں۔ وزارت کی سطح شاید نوٹیفکیشن میں توسیع لکھا گیا۔
جسٹس منصور نے کہا 29 نومبرکوجنرل باجوہ آرمی سٹاف کا حصہ نہیں ہونگے۔
چیف جسٹس نے کہا نوٹیفکیشن کے مطابق 29 نومبرسے دوبارہ تعیناتی ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کمانڈ کی تبدیلی تک جنرل باجوہ دوبارہ ریٹائرنہیں ہونگے۔
چیف جسٹس نے کہاسمری میں لکھا ہے 29 نومبرکوجنرل باجوہ ریٹائرہوجائیں گے۔
جسٹس منصور نے کہا حکومت کہتی ہے جنرل باجوہ ریٹائرہورہے ہیں۔اٹارنی جنرل کہتے ہیں جنرل کبھی ریٹائرنہیں ہوتا۔عدالت کے ساتھ ایک اورصاف بات کریں۔جواسٹاف کا حصہ نہیں وہ آرمی چیف کیسے بن سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا دوبارہ تعیناتی کا مطلب ہے کہ پہلے تعیناتی ختم ہوگئی۔پاک فوج کا معاشرے میں بہت احترام ہے۔ وزارت قانون اورکابینہ ڈویژن کم ازکم سمری اورنوٹیفکیشن توپڑھیں۔ فوجیوں نے خود آکرتوسمری نہیں ڈرافٹ کرنی۔
چیف جسٹس نے کہا ایک ریٹائرڈجج کو چیئرمین نیب لگایا گیا تھا۔جسٹس ریٹائردیدارشاہ کووزارت قانون نے رسوا کیا۔ وزارت قانون کی وجہ سے دیدارشاہ کی تعیناتی کالعدم ہوئی۔ ابھی بھی وقت ہے حکومت دیکھے یہ کرکیا رہی ہے۔اعلیٰ ترین افسرکے ساتھ تواس طرح نہ کریں۔
اٹارنی جنرل نے کہا یہ کوئی نیا کام نہیں ہورہا ،ماضی میں بھی توسیع ایسے ہی ہوتی تھی۔
جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیےماضی میں کسی نے کبھی توسیع کا عدالتی جائزہ نہیں لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کوئی نہیں چاہتا آرمی کمانڈ کے بغیررہے۔ وزارت قانون کی کوشش ہے آرمی کوبغیرکمانڈ رکھا جائے۔ ایسے تواسسٹنٹ کمشنرکی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آرمی چیف کوکیا جا رہا ہے۔ آرمی چیف کوشٹل کاک کیوں بنایا گیا؟ چیف جسٹس آرمی بغیرکمانڈ ہوئی توذمہ دارکون ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا آج آرمی چیف کے ساتھ یہ ہورہا توکل صدراوروزیراعظم کے ساتھ ہوگا۔ آپ خود کہتے ہیں توسیع اورتعیناتی الگ چیزیں ہیں۔ نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں۔ آئینی اداروں میں روزایسا ہوتا رہا تومقدمات کی بھرمارہوگی۔
چیف جسٹس کھوسہ نے کہا کل تک کوئی حل نکال لیں،ناجائز کسی کو کچھ نہیں کرنا چاہیئے۔ اگرغیرقانونی ہے توہمارا حلف ہے کہ کالعدم قراردیں۔ ججزصرف اللہ کوجوابدہ ہیں۔