میانمار میں فوج کے افسران اور اہلکاروں کیخلاف تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کورٹ مارشل کا آغاز ہوگیا ہے۔ان فوجی اہلکاروں کا کورٹ مارشل کا روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہونے پر کیا جارہا ہے ۔
دوہزار ستر ہ میں ایک گاوں میں فوجی آپریشن کے دوران میانمار کے فوجی اہلکاروں نےوہاں پر گھروں کو نذر آتش کیا تھا اور ساتھ ہی میں نہ صرف روہنگیا مسلمان نوجوانوں کو قتل کیا تھا بلکہ خواتین کو زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔
کہاجارہا ہے کہ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی بھی کورٹ مارشل پر عدالت میں پیش ہونگی اور اطلاعات کے مطابق اس کورٹ مارشل کو اپنی حمایت میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گی۔
اس سے قبل اقوام متحدہ نے بھی میانمار فوج کو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث قرار دیا تھا جس کے بعدمیانمار کی حکومت نے متعدد جرنیلوں اور اہلکاروں کو سزائیں بھی دی تھیں تاہم بعدازاں ان افسران اور اہلکاروں کو رہا کردینے کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں۔
پہلے آئی سی سی نے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔
بیان میں دو ہزار سترہ میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان میانمار کی فوج اور انتہا پسند بدھسٹوں کے وحشیانہ مظالم سے بچنے کیلئے بنگلہ دیش کی سرحد کے اندر پناہ لینے کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
تحقیقات میں میانمار سے بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور کرنے کے اقدامات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے اختیارات کا استعمال بھی کیا جائیگا۔
ہیگ کی عالمی عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو زبردستی ان کے وطن سے بے دخل کیا جانا انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں بھی آسکتا ہے۔-
آئی سی سی نے استغاثہ کو یہ اجازت ستمبر دوہزار اٹھارہ میں دی تھی کہ وہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی ابتدائی تحقیقات کا آغاز کرے ۔